افغانستا ن کے صدر اشرف غنی نے پاکستانی علماء کی طرف سے خود کُش حملوں کو مذہبی طور پر حرام قرار دینے سے متعلق فتوے کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
جمعرات کے روز افغان دارالحکومت کابل میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے سوال کیا کہ دہشت گردی کے خلاف فتوے کو پاکستان تک محدود کیسے رکھا جا سکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا، ’’کیا اسلامی اصول دنیا کے تمام اسلامی ممالک پر نافذ نہیں ہوتے؟ کیا اُنہیں صرف ایک ملک تک محدود رکھا جا سکتا ہے؟‘‘
اُنہوں نے روسی لیڈر سٹالن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سٹالن کے اشتراکی نظریے کی طرح اسلامی تعلیمات کو کسی ایک ملک تک محدود نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ آفاقی ہیں۔
اُنہوں نے افغانستان میں طویل عرصے سے جاری عدم استحکام کیلئے پاکستان پر الزام کو دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغان طالبان اور اُس کی عسکری تنظیم حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کرتا ہے۔ لہذا اس فتوے پر عملدرآمد افغانستان کے حوالے سے کیا جانا چاہئیے۔
حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے ’’پاکستان کا پیغام‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی ہے جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے 1800 پاکستانی علماء نے خود کش حملوں کو اسلامی اصولوں کے تحت حرام قرار دیا ہے۔ اُنہوں نے غیر ریاستی گروپوں کی جانب سے جہاد کے نام پر ہونے والے تشدد پر بھی مکمل پابندی کا مطالبہ کیاہے۔
پاکستان کے صدر ممنون حسین نے کتاب میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ فتویٰ جدید اسلامی ریاست میں استحکام کیلئے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں لوگ اسلامی اصولوں کے مطابق انتہا پسندی کو روکنے کیلئے ایک قومی بیانیے کی تیاری کیلئے اس فتوے سے راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
تاہم اشرف غنی نے کہا کہ افغان طالبان جیسے گروپوں کی حمایت کر کے پاکستان اپنے ہمسایہ اسلامی ملک کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی حمایت کرنا سانپ پالنے کے مترادف ہے اور جو لوگ سانپ پالتے ہیں وہ ایک روز اُنہی کو ڈس لیتے ہیں۔
اُدھر پاکستان کےوزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء کی طرف سے متفقہ طور پر یہ فتویٰ جاری کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہم نے ہر قسم کی دہشت گردی کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس فتوے سے دنیا بھر کے اسلامی ممالک کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ استحکام پیدا کریں اور مستقبل میں مثبت ترقی کی جانب پیش رفت کریں۔