طالبان کے سب سے بڑے لیڈر کے منظور کردہ ایک وفد نے افغانستان کی 16 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے امن مذاكرات دوبارہ شروع کرنے سے متعلق بات چیت کے لیے اس ہفتے اسلام آباد کا دورہ کیا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ایک اہم افغان سیاست دان کے نمائندے کے ساتھ ان غیر سرکاری اجلاسوں میں کوئی پیش رفت ہوئی تھی یا نہیں۔
اس سے پہلے براہ راست امن مذاكرات شروع کرنے کی کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
پیر کے روز اسلام آباد میں ہونے والے مذاكرات سے پہلے ترکی میں طالبان کے رابطہ کاروں اور حزب اسلامی کے نمائندوں کی مخصوص افراد کے ساتھ اختتام ہفتہ بیک چینل مذاكرات ہوئے۔
حزب اسلامی، جو طالبان کے اتحاد میں شامل تھی، ایک سال پہلے ہتھیار ڈال کر افغان حکومت کے ساتھ شامل ہوگئی تھی۔
افغان صدر اشرف کے ترجمان نے بدھ کے روز کہا کہ انہیں اسلام آباد مذاكرات کا علم نہیں ہے۔ جب کہ طالبان نے اس سلسلے میں بار بار پوچھے جانے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔
دونوں فریقوں نے ترکی مذاكرات میں حصہ لینے کی خبروں سے انکار کیا ہے۔
خبررساں ادارے روئیٹرز نے طالبان کے دو سینیر عہدے داروں کے حوالے سے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اسلام آباد میں ہونے والے اس غیر معمولی اجلاس کی منظوری دی تھی۔
ہیبت اللہ اخوندزادہ کے بارے عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں کسی جگہ روپوش ہیں۔
ایک اور خبر کے مطابق طالبان کے ترجمان ذیبحہ اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ترکی کے مذاكرات میں طالبان کا کوئی مستند نمائندہ شریک نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افغانستان میں حقیقی امن کو نقصان پہنچانے اور بدنام کرنے کی سازش ہے۔
واشنگٹن اسلام آباد پر یہ دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے اور طالبان قیادت کو مذاكرات کی میز پر لائے۔ جب کہ پاکستان کا کہنا ہے یہ دونوں عمل ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔
حقانی نیٹ ورک نے بات چیت کے لیے سازگار فضا پیدا کرنے کے سلسلے میں مذاكرات سے ایک ہفتہ قبل افغان صوبے پکتیا میں افغان فوج کے 14 سپائیوں کو رہا کیا تھا۔
افغان حکومت کے کنٹرول میں ملک کا تقریباً دو تہائی سے بھی کم علاقہ ہے جب کہ کابل جیسے بڑے شہروں میں طالبان کے بڑے پیمانے کے حملوں میں ہزاروں عام شہری ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔