منگل کو امریکی حکومت کو جزوی طور پر بند ہوئے 32 دن ہو گئے اور امکان یہ نظر آتا ہے کہ لگ بھگ 8 لاکھ وفاقی ملازمین کو دوسرا پے چیک بھی نہیں مل سکے گا۔
بظاہر کانگریس کے دیموکریٹس اور ریببلیکن صدر درمیان اس بارے میں کسی سمجھوتے کے ابھی تک کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ ڈیموکریٹک اکثریت کے ایوان نمائندگان نے پہلے بھی اس سلسلے میں تجاویز یا بل تیار کئے تھے جنہیں ریپبلیکن اکثریت کی سینٹ میں پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔
صدر ٹرمپ نے بقول ان کے سمجھوتے کی تجاویز بھیجی ہیں جنہیں ڈیموکریٹس یہ کہہ کر پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں کہ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
دوسری جانب حکومت کو جزوی شٹ ڈاؤن کی صورت حال سے نکلنے کے لیے سینیٹ اس ہفتےکسی وقتایک بل کا مسودہ منظور کرانے کی کوشش کرے گی۔اس کی قانونی حیثیت کیا ہو گی اور کیا صرف سینٹ قانون منظور کرنے کا اختیار رکھتی ہے؟
اس بارے میں سییٹل یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ڈاکٹر طیب محمود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ اپنے طور پر قانون نہیں بنا سکتی۔ لیکن کوئی بل شروع کر سکتی ہے، جس کے بعد اسے قانون بننے کے لئے ایوان نمائندگان سے منظور کرانا ہو گا۔ جب بل کا مسودہ دونوں ایوانوں سے منظور ہو گا تب ہی قانون بن کر صدر کے دسخطوں کے لئے بھیجا جا سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں بھی پہلے اسے کمیٹی میں منظور کرانا پڑے گا جس کے بعد اس کی منظوری کے لیے کم از کم 60 سینیٹرز کے ووٹ درکار ہوں گے۔ اور جب یہ بل پیش ہو جائے تو پھر اسے سادہ اکثریت یعنی 51 ووٹوں سے بھی منظور کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بل پیش کرنے کے لئے 60 ووٹوں کی اکثریت آئینی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک روایت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں مسئلے کے فوری حل کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی اور ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریقوں کے لئے یہ سیاسی بقا کا مسئلہ بن گیا ہے۔
ادھر فلوریڈا یونیورسٹی کے پروفیسر عظمت رسول نے بھی اسی خیال کا اظہار کیا کہ دونوں پارٹیوں کے سیاسی مستقبل اس وقت داو پر لگے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بقول انے یہ 2020 کی صدارتی انتخابی مہم کا آغاز ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5