دہلی پولیس نے ماحول کے تحفظ کے لئے آواز اٹھانے والی سویڈش کارکن گریٹا تھین برگ کی ایک ٹوئٹ کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کی ہے، جس میں انہوں نے ایک ٹول کٹ کا لنک شئیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جو لوگ بھارتی کسانوں کے حق میں آواز اٹھانا چاہتے ہیں، وہ اس ٹول کٹ سے استفادہ کریں۔
دہلی پولیس کے اسپیشل کمشنر پرویر رنجن نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ تقریباً 300 سوشل میڈیا ہینڈل پائے گئے ہیں جن کا استعمال کسانوں کے احتجاج کے حوالے سے نفرت انگیز اور قابل مذمت مواد پھیلانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا مانیٹرنگ کے دوران گریٹا کے ٹویٹر اکاونٹ سے جو ٹول کٹ ملا ہے۔ اس کے مصنف کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ گریٹا کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔
ادھر گریٹا نے ایک دوسرے ٹوئٹ میں کہا کہ وہ اب بھی کسانوں کی حمایت میں کھڑی ہیں اور کسی دھمکی سے نہیں ڈریں گی۔
یاد رہے کہ بھارتی کسان زرعی قوانین کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے زائد عرصے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ اس دوران حکومت اور کسان رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔
بھارت کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر کسانوں نے 26 جنوری کو نئی دہلی میں احتجاج کے دوران طے شدہ روٹ سے ہٹ کر شہر میں بھرپور احتجاج کیا۔ اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا جب کہ کسانوں نے لال قلعے کی عمارت پر اپنا پرچم بھی لہرایا۔
حکومت نے نئی دہلی میں احتجاج کرنے والے کسانوں کے مقام پر انٹرنیٹ سروس بند کر دی ہے جب کہ کئی سڑکوں کو خاردار تاریں لگا کر بند کر دیا ہے۔
بھارتی کسانوں کے احتجاج پر امریکہ کا ردعمل
یاد رہے کہ امریکہ نے بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ متنازع زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں سے بات چیت کر کے مسئلے کو حل کرے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ بھارتی حکومت اور کسانوں کے درمیان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
سفارت خانے کے ترجمان کا بیان میں مزید کہنا ہے کہ امریکہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ پر امن احتجاج فروغ پذیر جمہوریت کی شناخت ہے۔ امریکہ ایسے کسی بھی قدم کا خیر مقدم کرے گا جس سے بھارتی منڈیوں کی اہلیت اور نجی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو۔
دوسری جانب کئی نامور عالمی شخصیات اور بعض امریکی قانون سازوں نے کسانوں کے احتجاج کی حمایت کی ہے۔
کانگریس کی رکن ہیلی اسٹیونس نے کہا ہے کہ "ہمیں بھارت میں نئے زرعی قوانین کے خلاف پر امن انداز میں مظاہرہ کرنے والے کسانوں کے خلاف کارروائیوں کی رپورٹس پر تشویش ہے۔"
انہوں نے بھارتی حکومت اور کسانوں کے نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ بامعنی مذاکرات کی مدد سے مسئلے کو حل کریں۔
ایک دوسری امریکی قانون ساز الہان عمر نے بھارتی کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں بھارتی حکومت کو کسانوں کے جمہوری حقوق کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو اطلاعات تک آزادانہ رسائی دینا چاہیے۔ انھوں نے گرفتار صحافیوں کو رہا کرنے کی بھی اپیل کی۔
اس سے قبل امریکی گلو کارہ ریحانہ، اور امریکی نائب صدر کاملا ہیرس کی رشتے دار مینا ہیرس نے کسانوں کے احتجاج کی حمایت کی تھی۔
بھارتی وزارت خارجہ نے نامور بین الاقوامی شخصیات کے تبصروں پر بدھ کو سخت ردعمل ظاہر کتے ہوئے ان کو نامناسب اور غیر زمہ دارانہ قرار دیا ہے۔
SEE ALSO: نئی دہلی: مظاہرین نے لال قلعے پر 'نشان صاحب' لہرا دیا، جھڑپوں میں ایک ہلاکت
بھارتی وزارت خارجہ کا امریکی بیان پر ردعمل
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو نے کسانوں کے احتجاج پر امریکہ کے تبصرے کے سلسلے میں کہا کہ ہم نے امریکی وزارت خارجہ کے بیان کو دیکھا ہے۔ اہم یہ ہے کہ ایسے رد عمل کو اس کے تناظر اور اجتماعیت میں دیکھا جانا چاہیے۔
انھوں نے نیوز بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں اس بات کا اعادہ کیا کہ بھارت اور امریکہ مشترکہ اقدار کے ساتھ حرکت پذیر جمہوریت ہیں۔
اسی کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ 26 جنوری کو لال قلعہ پر ہونے والے ہنگامے اور تشدد کے واقعات پر بھارت میں اسی طرح جذبات اور رد عمل کا اظہار کیا گیا جیسا کہ چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر ہونے والے واقعے پر کیا گیا تھا۔
ترجمان نے کسانوں کے احتجاج کے سلسلے میں کہا کہ اسے بھارت کے جمہوری مزاج اور حکومت اور کسان تنظیموں کی جانب سے اس مسئلے کو حل کرنے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
مظاہرہ گاہوں پر اور ان کے اطراف میں انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کے سلسلے میں انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ مزید تشدد سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔
انھوں نے زرعی قوانین کے سلسلے میں کہا کہ امریکہ نے بھارت کے اقدامات کی حمایت کی ہے۔
بھارتی حزب اختلاف کا ردعمل
دریں اثنا حزبِ اختلاف کی 10 سیاسی جماعتوں کے 15 ارکان پارلیمنٹ نے جمعرات کی صبح نئی دہلی اور اترپردیش کے غازی پور سرحد پر احتجاج کرنے والے کسانوں سے ملاقات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن پولیس نے انہیں وہاں جانے سے روک دیا۔
کسانوں کے احتجاج میں شرکت کے لیے جانے والے وفد میں شرومنی اکالی دل کی ہرسمرت کور بادل، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کی سپریہ سولے، ڈی ایم کے کی کنی موژی اور ترنمول کانگریس کے سوگتا رائے بھی شامل تھے۔
ہرسمرت کور بادل نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ "ہم کسانوں کے احتجاج میں اس لیے جا رہے تھے کہ وہاں کے حالات پر پارلیمنٹ میں بحث کریں۔ تمام جماعتیں پارلیمنٹ میں بتائیں گی کہ احتجاج کے مقام پر کیا ہو رہا ہے۔"
ان کے بقول، "ہم نے غازی پور سرحد پر حالات دیکھے ہیں۔ کسانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اسے دیکھ کر صدمہ پہنچا۔ کسانوں کا کنکریٹ کی دیواروں اور خاردار تاروں کی باڑ سے محاصرہ کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ایمبولینس اور فائر برگیڈ کی گاڑیاں بھی وہاں تک نہیں جا سکتیں۔"
کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے رامپور جا کر 26 جنوری کو ہلاک ہونے والے ایک کسان کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی۔