پاکستان میں ٹائیفائیڈ کے کیسز میں اضافہ، کرونا کے کئی مریض بھی شکار

فائل فوٹو

پاکستان ميں کرونا وائرس کی وبا پھيلنے کے بعد سرکاری اسپتالوں ميں شعبہ برائے بيرونی مریض یعنی او پی ڈیز کی سہولت معطل ہے۔ جس کے باعث ديگر موذی امراض کے پھيلنے ميں تيزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ماہرين کے مطابق خیبر پختونخوا میں تیزی سے پھیلنے والی بيماريوں ميں سے ايک 'ٹائيفائيڈ' ہے جب کہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد میں سے 60 فی صد مریض ٹائیفائیڈ کا بھی شکار ہیں۔

ماہرین نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ مون سون کے بعد سندھ میں بھی ٹائیفائیڈ کے کیسز میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی ٹائیفائیڈ کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اسلام آباد کی صورتِ حال

فيڈرل گورنمنٹ سروسز اسپتال میں بطور میڈیکل آفیسر کام کرنے والے ڈاکٹر علی حسين شاکر کا کہنا ہے کہ آج کل ٹائيفائيڈ کے کيسز ميں نماياں اضافہ وہ رہا ہے۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر علی حسین کا کہنا تھا کہ اگرچہ حاليہ دنوں ميں او پی ڈیز کی سہولت ميسر نہيں ہے۔ ايسے ميں روزانہ کی بنياد پر ٹائيفائيڈ کے کيسز کا سامنے آنا تشويش ناک ہے۔

ڈاکٹر علی حسين شاکر کے بقول اگر ٹائيفائيڈ کا بروقت علاج کيا جائے تو يہ جان ليوا بيماری نہيں ہے۔

خیبر پختونخوا کی صورتِ حال

پشاور کے الخدمت اسپتال ميں بطور ڈائريکٹر فرائض سر انجام دینے والے ڈاکٹر اقتدار احمد کا کہنا ہے کہ صوبے ميں ٹائيفائيڈ کے کيسز ميں ريکارڈ تعداد ميں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کے بقول کرونا وائرس کے پھيلنے کے بعد ٹائیفائیڈ کے مريضوں میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق خيبر پختونخوا میں کرونا وائرس سے متاثرہ 60 في صد افراد ميں ٹائيفائيڈ کی علامات پائی گئی ہيں جو کہ بہت تشويش ناک صورتِ حال ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق خيبر پختونخوا میں کرونا وائرس سے متاثرہ 60 في صد افراد ميں ٹائيفائيڈ کی علامات پائی گئی ہيں جو کہ بہت تشويش ناک صورتِ حال ہے۔ (فائل فوٹو)

ڈاکٹر اقتدار کے مطابق بدقسمتی سے لوگوں کی معاشی حالت کے پيش نظر زيادہ تر ديہی علاقوں ميں فزيشين اب بھی پرانے طريقوں سے ٹائيفائيڈ کی تشخيص اور علاج کرتے ہيں۔

ڈاکٹر اقتدار احمد کے مطابق الخدمت اسپتال ميں روزانہ ايک ہزار سے زائد مريضوں کا معائنہ کيا جاتا ہے جب کہ گزشتہ ايک ہفتے کے دوران 610 افراد کے ٹائيفائيڈ ٹيسٹ کیے گئے۔ جن ميں سے 384 ٹیسٹ مثبت آئے۔

سندھ کی صورتِ حال

صوبہ سندھ ميں گزشتہ سال ٹائيفائيڈ کی روک تھام کے لیے صوبے بھر ميں مہم چلائی گئی تھی۔ جس ميں 15 سال سے کم عمر کے ايک کروڑ بچوں کو حصہ بنايا گيا تھا۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے پروجيکٹ ڈائريکٹر ايکسٹینڈڈ پروگرام برائے ايميونائزيشن (ای پی آئی) ڈاکٹر محمد اکرام سلطان کا کہنا ہے کہ ملک کے ديگر صوبوں کی نسبت سندھ ميں ٹائيفائيڈ کے خلاف مہم کی وجہ سے حالات قدرے کنٹرول میں ہيں۔

ان کے مطابق سندھ ميں 15 سال سے زائد عمر کے لوگوں کی ايک بہت بڑی آبادی ہے۔ جن کو ٹائيفائيڈ کی مہم کا حصہ نہيں بنايا گيا تھا۔ ان افراد ميں ٹائیفائیڈ کيسز رپورٹ ہوتے رہتے ہيں۔

نجی طبی ادارے آغا خان اسپتال کی ايک تحقيق کے مطابق کراچی اور حيدر آباد ميں ٹائیفائیڈ کے لگ بھگ 10 ہزار ايسے رجسٹرڈ کيسز سامنے آئے۔ جن پر ٹائيفائيڈ کے خلاف استعمال ہونے والی عمومی دوا اثر ہی نہيں کر رہی تھی۔ جس کے بعد سندھ حکومت نے بڑے پيمانے پر ٹائيفائيڈ کے حوالے سے مہم شروع کی۔

تحقیق کے مطابق جنوری 2017 سے فروری 2020 تک صرف کراچی ميں ٹائيفائيڈ کے 10 ہزار کيسز رپورٹ ہوئے۔ جس کے بعد اس مہلک بيماری کی روک تھام کے لیے سندھ حکومت نے حفاظتی ٹيکوں کے پروگرام ميں ٹائيفائيڈ کو بھی شامل کيا ہے۔

ايک تحقيق کے مطابق کراچی اور حيدر آباد ميں ٹائیفائیڈ کے لگ بھگ 10 ہزار ايسے رجسٹرڈ کيسز سامنے آئے جن پر ٹائیفائیڈ کی عمومی دوا اثر ہی نہیں کر رہی تھی۔ (فائل فوٹو)

ڈاکٹر محمد اکرام سلطان کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے جہاں ديگر معاملات زندگی متاثر ہوئے ہيں۔ وہيں دوسرے صوبوں ميں ٹائيفائيڈ کے حوالے سے مہم بھی متاثر ہوئی ہے ليکن سندھ اس لحاظ سے خوش قسمت رہا ہے کہ اس نے يہ مہم پہلے ہی شروع کر دی تھی۔

تاہم انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کيا کہ يہ بيماری چونکہ گندے پانی کی وجہ سے زيادہ پھيلتی ہے اور مون سون ميں بارشيں زيادہ ہوتی ہيں۔ تو ايسے ميں ٹائيفائيڈ کے پھيلنے کا بہت زيادہ امکان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر ميں سيوریج کی لائنيں بہت سارے مقامات پر صاف پانی کی لائنوں سے ملی ہوئی ہيں۔

ان کے بقول بد قسمتی سے پاکستان ميں موسم گرما ميں برف بہت زيادہ استعمال کی جاتی ہے جب کہ برف کے کارخانوں میں حفاظتی اقدامات نہيں ہوتے۔ تو يہ بھی ٹائيفائيڈ کے پھيلاؤ کی وجہ بنتے ہيں۔ ان کارخانوں کو کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تاکہ اس مہلک بيماری کو مزيد پھيلنے سے روکا جا سکے۔