تنقید کے باوجود ٹرمپ کا ٹیکساس اور اوہایو کے دورے کا اعلان

ٹیکساس کے شہر الپاسو میں فائرنگ سے کئی افراد ہلاک ہوئے تھے۔ فائل فوٹو

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ تنقید کے باوجود ٹیکساس اور اوہایو میں بدھ کو ان مقامات کا دورہ کر رہے ہیں جہاں گزشتہ ہفتے فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں 31 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

صدر ٹرمپ دورے کے دوران ٹیکساس کے شہر الپاسو بھی جائیں گے جہاں کے سیاست دان اور سول سوسائٹی کے افراد صدر ٹرمپ پر یہ تنقید کرتے ہوئے سراپا احتجاج ہیں کہ ان کے تارکین وطن سے متعلق سخت موقف سے متاثر ہو کر حملہ آور نے مارکیٹ میں فائرنگ کر کے لوگوں کو ہلاک کیا۔

الپاسو شہر امریکہ اور میکسیکو کی سرحد سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں سرحد سے بڑی تعداد میں پناہ گزین امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

صدر ٹرمپ متعدد بار پناہ گزینوں کی امریکہ آمد کو غیر قانونی اور تارکین وطن کا حملہ قرار دے چکے ہیں۔

مقامی حکام اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ دونوں مقامات پر صدر کی آمد پر احتجاج ہو سکتا ہے، جس کے پیش نظر سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

ریاست اوہایو کے شہر ڈیٹن کی ڈیمو کریٹ میئر نین ویلی نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ لوگوں کو باہر نکل کر صدر کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ خوش نہیں ہیں۔

صدر ٹرمپ اوہایو کے بعد الپاسو جائیں گے جہاں سے ڈیمو کریٹ پارٹی کی ایوان نمائندگان کی رکن ویرونیکا ایسکوبر کا کہنا ہے کہ "صدر ٹرمپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے انہیں یہاں خوش آمدید کہنے والا کوئی نہیں ہے۔"

حتیٰ کہ ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے میئر کا کہنا ہے کہ وہ صرف سرکاری حیثیت میں ہی صدر کا استقبال کریں گے۔

ناقدین صدر ٹرمپ پر امریکہ کو نسل پرستی کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں، تاہم صدر نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا ہے۔

اپنی ایک ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ میں مقیم ایشیائی اور افریقی ممالک کے افراد میں بے روزگاری کی شرح اس وقت امریکی تاریخ میں سب سے کم ہے۔

الپاسو کے شاپنگ مال میں فائرنگ کرنے والے 21 سالہ حملہ آور نے اپنے ابتدائی بیان میں اپنے اس اقدام کو ٹیکساس میں تارکین وطن کی بیجا آمد کا ردعمل قرار دیا تھا۔

فائرنگ کے ان دونوں واقعات کے بعد امریکہ میں اسلحہ قوانین کو مزید سخت بنانے کے لیے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ اسلحے کی خرید و فروخت کی حوصلہ شکنی کے لیے قانون سازی کی تجاویز بھی پیش کی جا رہی ہیں۔

امریکی حکام اور تحقیقاتی اداروں نے ان واقعات کو داخلی دہشت گردی کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔

صدر ٹرمپ کا یہ موقف سامنے آیا تھا کہ اسلحہ قوانین میں تبدیلیوں سے زیادہ ضروری ایسے پرتشدد ذہن کی بیخ کنی کرنا ہے جو ایسی کارروائیوں پر اکساتا ہے۔