صدر ٹرمپ کا کانگریس سے خطاب: تجارتی شراکت داروں پر ٹیرف سمیت دیگر پالیسیوں کا دفاع

  • صدر ٹرمپ نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں خارجہ پالیسی، ٹیرف، ایگزیکٹو آرڈرز، حکومتی اخراجات میں کمی سمیت دیگر موضوعات پر بات کی۔
  • صدر نے افغانستان سے انخلا کے وقت ہونے والے دھماکے کے مبینہ ملزم کی گرفتاری پر پاکستان کا خصوصی شکریہ بھی ادا کیا۔
  • صدر ٹرمپ نے ایک گھنٹہ 40 منٹ تک کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، جو ایک ریکارڈ ہے۔

ویب ڈیسک _ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجارتی شراکت داروں پر ٹیرف لگانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مستقبل میں بھی مزید محصولات عائد کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

منگل کی شب کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ دیگر ممالک امریکہ کے خلاف کئی دہائیوں سے ٹیرف عائد کرتے آئے ہیں اور اب ہماری باری ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت شروع ہونے کے بعد کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے یہ ان کا پہلا خطاب تھا۔

تجارتی شراکت داروں پر ٹیرف عائد کرنے سے متعلق صدر ٹرمپ کا بیان ایسے موقع پر آیا ہے جب امریکہ نے منگل کی صبح ہی دو بڑے شراکت داروں اور ہمسایہ ممالک، کینیڈا اور میکسیکو کی ایکسپورٹ پر 25 فی صد ٹیرف عائد کیا ہے۔

امریکہ نے چین کی مصنوعات پر بھی ٹیرف بڑھا کر 20 فی صد کر دیا ہے جو اس سے قبل10 فی صد تھا۔ چین امریکہ کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

ٹیرف کے نفاذ کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ پر بھی اس کے اثرات دیکھے گئے ہیں جب کہ تینوں ممالک نے بھی جوابی ٹیرف کی دھمکی دی ہے جس سے بڑے پیمانے پر تجارتی جنگ شروع ہونے کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے منگل کو اپنے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ امریکہ دو اپریل سے اپنے تمام تجارتی پارٹنرز پر جوابی ٹیرف لگائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جو ٹیرف وہ ہم پر لگائیں گے، ہم بھی وہی ان پر لگائیں گے۔ جتنا ٹیکس وہ ہم پر لگائیں گے ہم بھی اتنا ہی لگائیں گے۔

صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ "میں یکم اپریل کو ٹیرف کا نفاذ چاہتا تھا لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ مجھ پر اپریل فولز ڈے کا الزام لگے۔"

صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ ایلومینیم، اسٹیل، تانبے اور لکڑی کی درآمد پر بھی 25 فی صد ٹیرف عائد کریں گے۔

'امریکہ از بیک'

ٹرمپ نے یہ خطاب دوسری مرتبہ مدتِ صدارت سنبھالنے کے چھ ہفتے بعد کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے پیر کو کہا تھا کہ اس خطاب کا مرکزی خیال "امریکی خواب کی تجدید" ہوگا۔

خطاب کے موقع پر نائب صدر جے ڈی وینس اور ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن صدر ٹرمپ کے پیچھے اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹرمپ نے اپنے خطاب کا آغاز اس اعلان سے کیا کہ "امریکہ از بیک" جس پر ری پبلکن قانون سازوں نے "یو ایس اے" کے پرُجوش نعرے لگائے۔

انہوں نے کہا کہ چھ ہفتے قبل جب میں اس کیپٹل کے گنبد کے نیچے کھڑا تھا تو میں نے امریکہ کے سنہری دور کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔ اس لمحے کے بعد سے ہر قدم ملکی تاریخ کے عظیم ترین اور سب سے کامیاب دور کی جانب تیز اور نہ رکنے والے سفر میں بڑھ رہا ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے 43 دنوں میں اتنی کامیابی حاصل کی ہے جو کئی حکومتوں نے چار یا آٹھ برسوں میں بھی حاصل نہیں کی۔

واضح رہے کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک صدر ٹرمپ لگ بھگ 80 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کر چکے ہیں۔

امیگریشن اور بارڈر سیکیورٹی

اپنے خطاب کے شروع میں صدر ٹرمپ نے امریکہ-میکسیکو سرحد پر قومی ایمرجنسی اور "ملک پر حملے کو پسپا کرنے" کے لیے امریکی فوج اور بارڈر پیٹرول کو تعینات کرنے کے اعلان کا دفاع کیا۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے "امریکی تاریخ کے سب سے وسیع بارڈر اور امیگریشن کریک ڈاؤن" کا آغاز کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے اقدامات سے جنوبی سرحد سے امریکہ میں داخل ہونے والے غیرقانونی تارکینِ وطن کی تعداد کم ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا:’’ میڈیا اور ڈیموکریٹک پارٹی میں ہمارے دوست کہتے تھے کہ بارڈر سیکیورٹی کے لیے ہمیں نئے قوانین کی ضرورت ہے ۔ لیکن ثابت یہ ہوا ہے کہ ہمیں تو نئے صدر کی اشد ضرورت تھی۔‘‘

ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں سے متعلق ایگزیکٹو آرڈر کی تعریف

امریکی صدر نے اپنے خطاب کے دوران خواتین کے کھیلوں میں ٹرانس جینڈر خواتین پر پابندی عائد کرنے کے اپنے ایک حالیہ ایگزیکٹو آرڈر کی بھی تعریف کی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھےجس کے تحت ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں پر ، لڑکیوں اور خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اعلان کیا تھا کہ اب سے امریکی حکومت صرف دو ہی اصناف یا جینڈرز 'مرد اور عورت' کو قبول کرے گی، کوئی تیسری صنف قابلِ قبول نہیں ہو گی۔

ڈوج کی ستائش

وفاقی حکومت کا حجم کم کرنے کے معاملے پر صدر ٹرمپ نے اپنے خصوصی مشیر ایلون مسک کی بھی تعریف کی۔ منصب سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ نے تمام وفاقی بھرتیوں پر پابندی لگا دی تھی۔

ایلون مسک کی سربراہی میں ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفی شینسی (ڈوج) کی سفارشات پر ہزاروں سرکاری ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے۔ جب کہ وفاقی حکومت میں کٹوتیاں بھی کی گئی ہیں۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اُن کی انتظامیہ ـ ـ"اس غیر جواب دہ بیوروکریسی سے دوبارہ اقتدار حاصل کرے گی اور ہم امریکہ میں دوبارہ حقیقی جمہوریت بحال کریں گے۔ـ"

انہوں نے واضح کیا کہ جو فیڈرل بیورکریٹ بھی اس تبدیلی کے راستے میں آئے گا اسے فوری طور پر برطرف کردیا جائے گا کیوں کہ ہم صفائی کر رہے ہیں۔

ری پبلکنز کا جوش و خروش اور ڈیمو کریٹس کا احتجاج

خطاب کے دوران ری پبلکن قانون ساز صدر ٹرمپ کی حمایت میں بار بار تالیاں بجائیں۔ جب کہ ڈیمو کریٹک قانون ساز اس دوران احتجاج کرتے رہے۔

صدر ٹرمپ کے خطاب کے دوران خلل ڈالنے کی کوشش پر ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن ایل گرین کو ایوان سے نکال دیا گیا۔

صدر ٹرمپ کے خطاب کے ابتدائی پانچ منٹ کے دوران ڈیمو کریٹک رکن ایل گرین اپنی نشست سے کھڑے ہو کر احتجاج کرنے لگے۔ اس موقع پر ایوان کے اسپیکر مائیک جانسن نے ہاؤس سارجنٹ آف آرمز کو ہدایت کی کہ ایل گرین کو ایوان سے باہر لے جایا جائے۔

ڈیموکریٹک کانگریس مین کو ایوان سے باہر نکانے کے دوران بھی صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب جاری رکھا۔

صدر ٹرمپ کے خطاب کے دوران کچھ ڈیمو کریٹک قانون سازوں نے سائنز اٹھا کر بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جب کہ بعض ڈیموکریٹک ارکان واک آؤٹ بھی کر گئے اور بعض ارکان ایوان سے غیر حاضر رہے۔

خارجہ پالیسی اقدامات

خارجہ پالیسی کے محاذ پر اپنے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے کچھ عالمی تنظیموں اور معاہدوں سے امریکہ کو نکال لیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد غیر ملکی امداد کو منجمد کر دیا تھا جب کہ پیرس کلائمیٹ چینج معاہدے کو ـ ـ "غیر منصفانہ" اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کو "بدعنوان" قرار دیتے ہوئے امریکہ کو ان سے الگ کر لیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو ـ "امریکہ مخالف" قرار دیتے ہوئے اس سے بھی علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں جس کا آغاز تین سال سے زیادہ عرصہ قبل روس کے یوکرین پر حملے سے ہوا تھا۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا "یہ پاگل پن کو روکنے کا وقت ہے۔ یہ ہلاکتوں کو روکنے کا وقت ہے۔ یہ بے معنی جنگ کو ختم کرنے کا وقت ہے۔"

صدر ٹرمپ نے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی سے ملنے والے خط کا ذکر بھی کیا۔

صدر ٹرمپ کے بقول انہیں صدر زیلنسکی کی طرف سے ایک اہم خط موصول ہوا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ یوکرین مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے تیار ہے تاکہ امن لایا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا:’’ ہماری روس کے ساتھ بھی بہت سنجیدہ نوعیت کی بات چیت ہوئی ہے اور ہمیں بہت واضح اشارے ملے ہیں کہ وہ امن کے لیے تیار ہیں۔‘‘

کابل ایئرپورٹ دھماکے کے مبینہ ملزم کی گرفتاری پر پاکستان سے اظہارِ تشکر

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کے وقت ہونے والے دھماکے کے مبینہ ملزم کی گرفتاری پر پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ کابل ایئرپورٹ کے ایبی گیٹ پر ہونے والے حملے کے دہشت گرد کو امریکہ لایا جا رہا ہے۔

اگست 2021 میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ کے ایبے گیٹ پر دھماکہ ہوا تھا جس میں 13 امریکی اہلکاروں سمیت 150 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کابل ایئرپورٹ دھماکہ؛ ملزم کی گرفتاری میں مدد پر پاکستان کا شکریہ: صدر ٹرمپ

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ کابل ایئرپورٹ دھماکے کے مبینہ ملزم کی شںاخت محمد شریف اللہ کے نام سے ہوئی ہے جسے قانونی کارروائی کے لیے امریکہ لایا جا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے ایک گھنٹہ 40 منٹ تک کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے طویل ترین خطاب کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ سابق صدر بل کلنٹن کے پاس تھا، جنہوں نے ایک گھنٹہ 28 منٹ کا خطاب کیا تھا۔

ڈیموکریٹس کا ردِعمل

امریکہ میں صدر کے کانگریس سے خطاب کے بعد مخالف پارٹی کے مقرر کردہ کردہ کانگریس کے رکن اس پر ردِ عمل دیتے ہیں جن میں وہ خطاب کے مندرجات پر اپنا مؤقف سامنے رکھتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے خطاب کے بعد ڈیموکریٹس کی جانب سے سینیٹر الیسا سلوٹکن نےاس بار یہ ذمے داری ادا کی۔

انہوں نے اپنے بیان میں ووٹرز پر زور دیا کہ وہ سیاست میں دلچسپی لیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ "تھک جانا آسان ہے، لیکن امریکہ کو اب پہلے سے کہیں زیادہ آپ کی ضرورت ہے۔ اگر پچھلی نسلیں اس جمہوریت کے لیے نہ لڑتی تو آج ہم کہاں ہوتے؟"

اُنہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر ملازمتوں میں کٹوتیوں پر بھی تنقید کی۔

الیسا سلوٹکن کا کہنا تھا کہ "ہمیں زیادہ مؤثر حکومت کی ضرورت ہے۔ آپ وسائل ضائع ہونے سے بچانا چاہتے ہیں؟ تو میں بھی اس میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ تبدیلی افراتفری کا باعث بنے یا ہمیں غیر محفوظ ہونے کا احساس دلائے۔

ڈیموکریٹک سینیٹر نے خارجہ امور اور ٹیرفس عائد کرنے سے متعلق ٹرمپ حکومت کے فیصلوں پر بھی تنقید کی۔