ہفتے کے سات دن، دھنک کے سات رنگ اور موسیقی کے سات سر تو سب کے لئے برابر ہیں۔ لیکن، پھر بھی کچھ لوگ زیادہ تر دن خوشی میں گزارتے ہیں اور کچھ اداسی میں۔ کچھ لوگ خوشی کے گانے اور شوخ رنگ پسند کرتے ہیں تو کچھ پھیکے رنگ اور اداس میوزک۔
ماہرین کے مطابق، فرق سوچ کا ہوتا ہے۔ پروفیسر رونالڈ رججیو سائکولوجی ٹوڈے میں لکھتے ہیں کہ جب روز مراہ زندگی کے اتار چڑھاو سے انسان اداس ہو جاتا ہے تو چھوٹی چھوٹی تدابیر انسان کو ایک وقفہ دیتی ہیں اور اس کی صحت کو بہتر کرتیں ہیں۔
ماہر نفسیات پروفیسر رونالڈ رججیو تحقیق کی روشنی میں ایسے سات مشورے دیتے ہین کہ جن پر عمل کرکے انسان اپنی پریشانی اور اداسی کم کر سکتا ہے اور بہتر محسوس کر سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو تشکر اور ممنونیت کے جذبے کے بڑے فوائد ہیں۔ جو کچھ انسان کہ پاس ہو اس کا شکر ادا کرنے یا کسی انسان کی کسی مدد کا شکریہ ادا کرنے سے نہ صرف انسان بہتر محسوس کرتا ہے، بلکہ اس میں مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے اور دوسروں کو بھی اس سے خوشی ہوتی ہے۔
پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ ہنسنا شاید بہترین دوا نہ ہو، لیکن اس سے انسان بہتر ضرور محسوس کرتا ہے، ہنسنے مسکرانے سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے اور توانائی بڑہتی ہے اور پھر یہ کہ ایک کے ہنسنے سے دوسرے بھی ہنستے ہیں اور ماحول میں پریشانی کم ہو جاتی ہے اور دوسرے بھی اس سے بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
روز مراہ کے روٹین میں وقفہ کرنے سے بھی انسان بہتر محسوس کرتا ہے چاہے وہ دوستوں سے ملے، کچھ کھیلے، ورزش کرے یا شاپنگ۔ اچھی نفسیاتی صحت کے لئے انسان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کے پاس کیا کچھ ہے نہ کہ یہ کہ اس کے پاس کیا نہیں ہے، کیونکہ منفی سوچ انسان کو مایوس اور بے بس کر دیتی ہے اس لئے اسے اپنے اچھے دوستوں، اچھے وقت اور اپنی صلاحتوں پر توجہ دینی چاہئے۔
مشکل وقت میں کسی کی مدد کرنے سے خود مدد کرنے والے کو بھی بہت اچھا محسوس ہوتا ہے اور ایسی ہی خوشی تب بھی ملتی ہے کہ جب انسان کسی اپنے کے ساتھ اچھا وقت گزارتا ہے، چاہئے وہ محبوب کے ساتھ کھانا کھانا ہو یا کسی بچے کو گھمانا پھرانا، اور یہ اچھی یادیں مشکل وقت میں انسان کو سہارا دیتی ہیں۔
پروفیسر رونالڈ رججیو لکھتے ہیں کہ فلاحی کام بھی انسان کی خوشی کا سبب بنتے ہیں اور کراچی کے سول ہسپتال میں بچوں کے شعبے کی سربراہ اور بچوں کی فلاح کے لئے کام کرنے والے ادارے کونپل کی روح رواں پروفیسر ڈاکٹر عائشہ مہناز اس بات سے پوری طرح اتفاق کرتی ہیں۔
پروفیسر صاحبہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی روایتی تعلیم و تربیت میں انھیں صرف نصاب پڑھایا جاتا ہے، جب کہ انھیں یہ لازمی سکھایا جانا چاہئے کہ اگر بچے زندگی میں کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں دوسروں کو بھی کچھ دینا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بچوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ لینے والے نہین بلکہ دینے والے ہاتھ ہیں تو اس سے بچوں کو خوشی بھی ملتی ہے اور وہ مستقبل میں ایک متوازن شخصیت کے مالک اور کارآمد شہری بنتے ہیں۔