جب بھی پاکستان کے بڑے سماجی کارکنوں کا ذکر آتا ہے، مولانا عبدالستار ایدھی کا نام اس میں سرفہرست ہوتا ہے۔ فرشتہ صفت، سادہ مزاج، جسم پر معمولی کپڑے اور پیروں میں عام سی چپل پہننے والے عبدالستار ایدھی اب تک انگنت ملکی اور غیر ملکی ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔
بقول ان کی شریک حیات بلقیس ایدھی، ’دنیا کے بے شمار مالیاتی ادارے، ملک کے بڑے بڑے سرمایہ کار اور نامی گرامی صنعت کار اور ،یہاں تک کہ، لاتعداد سیاست دان و حکمران انہیں مالی معاونت کی پیشکش کرتے رہے ہیں۔ لیکن، انہوں نے کبھی ایک پیسے کی بھی امداد قبول نہیں کی۔ وہ بھیک مانگ لیتے ہیں لیکن مالی معاونت کے لئے سرمایہ کاروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔‘
بقیس ایدھی کا یہ بھی کہنا تھا ’پہلے میں ان کے کپڑے کھینچ کھینچ کر اشارے سے کہا کرتی تھی کہ پیسے کی آفر ہورہی ہے لے لو۔۔بچوں کے کام آئیں گے۔ لیکن، انہوں نے ہمیشہ منع کیا۔ بھٹو صاحب آئے، کہا جو چاہیئں لے لو، ضیاء الحق نے کہا مانگتے ہیں، ورلڈ بینک والوں نے امداد کی آفر کی، دوسرے کئی عالمی اداروں نے ڈھیروں پیشکش کیں۔ لیکن، یہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔‘
گزشتہ ہفتے بھی عبدالستار ایدھی نے بولٹن مارکیٹ کراچی سے مزار قائد تک وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود عام آدمیوں سے’بھیک‘ مانگی۔ پیر کو وائس آف امریکہ نے عبدالستار ایدھی سے جب یہ پوچھا کہ وہ ’بھیک‘ کیوں مانگتے ہیں؟اور بھیک کو مالی معاونت جیسے لفط پر ترجیح کیوں دیتے ہیں تو ان کا کہنا تھا: ’مجھے آج تک جو کچھ بھی ملا ہے۔۔عام آدمی سے ملا ہے۔ ۔۔سرمایہ داروں نے کبھی دینے کی کوشش بھی کی تو میں نے ان کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ۔۔۔مجھے کسی ایوارڈ کی،کسی انعام کی کبھی تمنا نہیں رہی۔ لیکن۔۔ عام آدمی کی۔۔عام آدمی کے دل کی میں نے ہمیشہ پروا کی ہے، اس لئے جب بھی مجھے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے میں بھیک مانگنے نکل پڑتا ہوں۔۔عام آدمی سے لیکر میں مطمئن ہوجاتا ہوں۔ ایک دفعہ بھیک مانگنے نکلتا ہوں تو لاکھ ، ڈیڑھ لاکھ روپیہ مل جاتا ہے۔ اس سے غریبوں کے بہت سے کام نکل جاتے ہیں۔‘
عبدالستار ایدھی کے بیٹے فیصل ایدھی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’بھیک مانگنے کا پہلے سے کوئی پلان نہیں ہوتا۔ بس بیٹھے بیٹھے ایدھی صاحب کو عام آدمی سے ملنے کا دل چاہتا ہے تو ایسے ہی اچانک بھیک مانگنے نکل پڑتے ہیں۔‘
بلقیس ایدھی نے بتایا، ’سیاستدانوں اور سرمایہ کاروں سے مالی معاونت مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کبھی نہ کبھی ان کا کوئی نہ کوئی کام ضرور کرنا پڑے گا جبکہ سڑک پر چلتا ہوا عام آدمی اگر بھیک میں کچھ دیتا ہے تو خالصتاً دلی جذبے اور بے لوث ہوکر دیتا ہے۔۔پھر چاہے وہ پانچ روپے دے یا پانچ ہزار۔‘
واقعہ جس پر سب کو افسوس ہے
عبدالستار ایدھی، بلقیس ایدھی اور فیصل ایدھی کو زندگی میں سب سے زیادہ افسوس اس حالیہ واقعے پر ہوا، جس میں ان کے سینٹر میں چوری ہوئی اور ٹرسٹ کو تیرہ کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
فیصل ایدھی بتاتے ہیں ’تیرہ کروڑ کی فیگر بھی ہمیں وکیلوں اور اسٹاف کی معرفت پتہ چلی ۔ نقڈی کے ساتھ ساتھ کئی کلو سونا چلا گیا۔ یہ سونا زیادہ تر ایسے افراد کا تھا جو لاورث لاشوں سے ہمیں برآمدہوتا ہے جبکہ کچھ لوگوں نے امانت کے طور رکھوایا ہوا تھا۔ ہر زیور کے ساتھ اس کے مالک کا نام و پتہ بھی درج تھا۔ لیکن، ملزمان نے انہیں نذر آتش کر دیا۔ ابھی تک ایک ہی ملزم پکڑا گیا ہے جس سے چوری کی کچھ رقم برآمد ہوئی ہے، جبکہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بھی کئی جگہوں سے رقم ملی ہے لیکن اب بھی چار ملزمان کی پولیس کو تلاش جاری ہے۔‘
بلقیس ایدھی کا اس حوالے سے کہنا تھا ’ایک ملزم ہمارا ڈرائیور تھا۔ ڈھیرسارا سونا تھا جو پچھلے 50 سالوں سے ہمارے پاس رکھا ہوا تھا۔ یہی الماریاں جو آپ کے سامنے رکھی ہیں ان کے لوکر میں ہی سونا اور نقدی رکھی تھی ۔ اب ہم دو میاں بیوی کے علاوہ یہاں کچھ نہیں، اب کوئی آیا تو ہمیں ہی اغوا کرکے لے جائے گا۔ ہمارے پلے کچھ نہیں‘۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں فیصل ایدھی نے کہا کہ، ’چوری کا ازالہ پورا کرنے کے لئے ایک بڑے تاجر نے ہمیں پچھلے دنوں کچھ رقم دی تھی ہم سوچ رہے ہیں کہ وہ رقم انہیں واپس کردی جائے، امکان ہے کہ آج کل میں ہی شاید ایسا ہوجائے لیکن ابھی کچھ پہلو وٴں پر غور باقی ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے‘۔
چوری کے بعد کیا حفاظتی انتظامات بڑھائے گئے ہیں۔ اس سوال پر عبدالستار ایدھی کا کہنا تھا: ’یہ جو دو پولیس والے باہر بیٹھے ہیں بس یہی سیکورٹی ہے۔ یہ لوگ بھی واقعہ کے بعد تعینات کئے گئے ۔۔اب ان کا کیا فائدہ۔ میں تو کہتا ہوں بھگاوٴ انہیں یہاں سے۔‘
ملالہ کو امن کا ایوارڈ ملا ۔۔مولانا ایدھی خوش ہوئے
’مجھے خوشی ہے، سوات کی ایک عام سی لڑکی کو ایوارڈ ملا‘ ماضی میں اسی ایوارڈ کے لئے نامزدگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ’امن کا نوبل انعام ’بڑے لوگوں‘ کو ملتا ہے ، میں تو بہت چھوٹا آدمی ہوں۔ کسی نے نامزد کیا ۔۔میں کچھ نہیں بولا مگراسے حاصل کرنے کی خواہش کبھی نہیں ہوئی۔ لینن ایوارڈ مل چکا ہے، روم والوں نے بھی اپنا بہت بڑا اور قیمتی ایوارڈ مجھے دیا۔ لیکن میرے لئے اصل ایوارڈ اپنے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔ دنیا بھر کی حکومتیں مجھے مالی معاونت کی پیشکش کرچکی ہیں لیکن میں نے کبھی ان کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا، جب ضرورت ہوئی اپنے لوگو ں سے ہی مانگا۔ اس ٹرسٹ کے قیام کے وقت بھی اپنوں سے ہی دو لاکھ روپے لیکر اس کی شروعات کی تھی آج بھی جو کچھ ہے اپنے لوگوں نے دیا ہے۔ ’