پاک، افغان سرحد طورخم کی بار بار بندش؛ 'اب تو یہ معمول بن چکا ہے'

  • دونوں ملکوں کے درمیان طورخم میں زیرو پوائنٹ کے قریب مورچے کی تعمیر پر حالات کشیدہ ہونے پر پاکستان نے گزرگاہ کو مبینہ طور پر بند کر کے دو طرفہ تجارت اور آمدورفت کا سلسلہ روک دیا تھا۔
  • خیبرپختونخوا ایوانِ صنعت و تجارت کے سابق نائب صدر شاہد حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طورخم بارڈر کی بار بار بندش سے دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم 60 سے 80 کروڑ ڈالر رہ گیا ہے۔
  • پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب چیئرمین ضیاء الحق سرحدی کہتے ہیں کہ منگل کی شام تک سامان سے لدے ٹرکوں اور ٹرالرز کی تعداد 2500 تک پہنچ چکی ہے۔

پشاور -- پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصروف ترین سرحدی گزر گاہ طورخم ہر قسم کی تجارتی سرگرمیوں کے لیے جمعرات کو چھٹے روز بھی بند رہی۔

طورخم سرحد کی بندش سے نہ صرف دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تجارت کا سلسلہ معطل ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد بشمول طلبہ، صنعتی اداروں سے منسلک ملازمین بھی سرحد کے دونوں جانب بارڈر کھلنے کے انتظار میں ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان طورخم میں زیرو پوائنٹ کے قریب مورچے کی تعمیر پر حالات کشیدہ ہونے پر پاکستان نے گزرگاہ کو مبینہ طور پر بند کر کے دو طرفہ تجارت اور آمدورفت کا سلسلہ روک دیا تھا۔

پاکستان نے سرکاری طور پر سرحدی گزرگاہ کی بندش کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ تاہم طورخم میں حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ دنوں میں لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔

دوسری جانب تاجر برادری بھی پریشان ہے جن کا ٹرکوں پر لدا کروڑوں روپے مالیت کا پھل اور سبزیاں خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

سرحدی گزرگاہ کی بندش کے نتیجے میں پیدا شدہ صورتِ حال پر پاکستان اور افغان حکام کے درمیان منگل کو ایک اجلاس ہوا۔

کئی گھنٹوں پر محیط ان مذاکرات کے بارے میں کسی بھی جانب سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم طورخم میں ایک سرکاری عہدیدار نے سرحدی گزرگاہ بہت جلد کھلنے اور تجارتی سرگرمیاں بحال ہونے کی نوید سنائی ہے۔

اُدھر سرحد پار افغانستان کے طالبان عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے مذاکرات کے بارے میں کابل حکام کو بتا دیا ہے جن کی جانب سے مزید ہدایات کا انتظار ہے۔

ماضی قریب بالخصوص اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد طورخم بارڈر کی بندش معمول بن چکی ہے۔

طورخم میں کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹ ایسوسی ایشن کے صدر مجیب الرحمن شنواری کہتے ہیں کہ اب تو سرحدی گزرگاہوں کی بندش معمول بن چکا ہے جس کے نتیجے میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے تاجر مایوس ہو کر پاکستان کے بجائے وسط ایشیائی ممالک اور ایران کے ذریعے تجارت کو ترجیح دے رہے ہیں۔

طورخم کے علاوہ چمن، تری منگل اور خرلاچی، غلام محمد اور انگور اڈہ کی سرحدی گزرگاہیں بھی وقتاً فوقتاً بند ہوتی رہتی ہیں۔

پانچ روز قبل جس وقت پاکستانی حکام نے طورخم کی سرحدی گزرگاہ کو بند کیا۔ اسی روز افغانستان کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے ازبکستان میں اپنے ہم منصب کے ساتھ تاشقند میں ملاقات کی ۔

افغانستان کی کاروباری شخصیت عبدالوحید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس ملاقات کا مقصد افغانستان اور ازبکستان کے درمیان دو طرفہ اور ازبکستان کے راستے دیگر ممالک کے ساتھ افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ کو مستحکم کرنا تھا ۔

طورخم میں ایک روز قبل سرحدی گزرگاہ کی بندش سے متاثرہ تاجروں اور مزدوروں نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا ۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ سرحدی گزرگاہ کی بندش سے تاجروں، ٹرانسپورٹرز، مزدوروں،مریضوں اور مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ لہذٰا بارڈر کو فوری طور پر کھلنا چاہیے۔

خیبرپختونخوا ایوانِ صنعت و تجارت کے سابق نائب صدر شاہد حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طورخم بارڈر کی بار بار بندش سے دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم 60 سے 80 کروڑ ڈالر رہ گیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ طورخم کے بجائے دو طرفہ تجارت کا زیادہ تر حصہ اب چمن بلوچستان منتقل ہو گیا ہے جب کہ خیبرپختونخوا حکومت نے افغانستان کے راستے تجارت پر دو فی صد ٹیکس بھی نافذ کر دیا ہے۔

نائن الیون کے بعد طورخم سرحد ایک بین الاقوامی سرحدی گزرگاہ بن گئی تھی۔ امریکہ اور اتحادیوں نے جنگ سے تباہ حال افغانستان کی تعمیرِ نو شروع کی تو دُنیا کے مختلف ملکوں سے آنے والا تعمیراتی سامان، طورخم سرحد کے ذریعے افغانستان بھیجا جاتا تھا۔

ماہرین کے مطابق اس وقت سامان سے لدی گاڑیوں کی زیادہ چھان بین بھی نہیں ہوتی تھی اور یومیہ چار سے پانچ ہزار ٹرک یہاں سے گزرتے تھے۔ لیکن 2006 کے بعد ان ٹرکوں کی تعداد میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی۔

کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ ابلان علی کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی گزرگاہوں بالخصوص طورخم کی بندش 2016 سے معمول بن چکی ہے۔

اُن کے بقول 2016 سے اگست 2021 تک طورخم کبھی بھی کئی گھنٹوں یا ایک دن کے لیے بند نہیں ہوئی تھی، مگر جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں۔ اسی روز سے یہ سرحدی گزرگاہ کئی کئی دنوں اور ہفتوں سے بند رہتی ہے۔

اُن کے بقول زیادہ تر افغان تاجر جاپان، تائیوان، سنگاپور، متحدہ عرب امارات اور دیگر یورپی ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے اب ایران کی بندر عباس بندرگاہ کو ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ اگست 2021 سے لے کر اب تک طورخم سرحد لگ بھگ 14 بار بند ہو چکی ہے۔

پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب چیئرمین ضیاء الحق سرحدی کہتے ہیں کہ منگل کی شام تک سامان سے لدے ٹرکوں اور ٹرالرز کی تعداد 2500 تک پہنچ چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تازہ پھل اور سبزیوں کے علاوہ ان ٹرکوں میں پولٹری( چکن یا مرغ) اور گوشت سے لدے ہوئے درجنوں ٹرک بھی شامل ہیں جن کے خراب ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔