|
پشاور—افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی ضلعے خیبر کے حساس ترین وادیٔ تیراہ میں عسکریت پسندوں نے حملہ کرکے پانچ سیکیورٹی اہل کاروں کو ہلاک اور چھ کو زخمی کر دیا ہے۔ چار عسکریت پسند ہلاک ہونے کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔
ضلع خیبر کی انتظامی اور پولیس حکام کے بیانات کے مطابق پیر کو پاکستان افغانستان سرحد پر وادیٴ تیراہ کے گاؤں آدم خیل میں صبح چار بجے سیکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ پر نامعلوم شر پسندوں نے حملہ کیا۔
چیک پوسٹ میں تعینات سیکیورٹی اہلکاروں نے جوابی کارروائی شروع کی۔ دونوں جانب سے کافی دیر تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔
حکام کے مطابق دوطرفہ فائرنگ کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کے پانچ جوان ہلاک اور چھ زخمی ہوئے ۔ اس جھڑپ میں تین سے پانچ عسکریت پسندوں کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔
تاہم کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے وادیٴ تیراہ میں حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اپنے چار جنگجو ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔
مقامی حکام کے مطابق حملے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں اور زخمیوں کو سیکیورٹی فورسز نے ہیڈکوارٹر لرباغ منتقل کر دیا ہے جہاں سے بعد میں انہیں پشاور کے ملٹری کمبائنڈ اسپتال (سی ایم ایچ) منتقل کیا گیا۔
فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کے خلاف مختلف کارروائیوں میں 23 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
ترجمان پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ 26 مئی کو پشاور کے علاقے حسن خیل میں کارروائی کے دوران چھ دہشت گرد مارے گئے۔ 27 مئی کو ٹانک میں کارروائی کے دوران 10 دہشت مارے گئے۔
فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے ضلع باغ میں کارروائی کے دوران سات دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
SEE ALSO: پاکستان میں غیر ملکیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے: رپورٹ
خیبر پختونخوا سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں دو دنوں کے دوران سیکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں کا یہ دوسرا بڑا حملہ ہے۔
ایک روز قبل پشاور سے ملحقہ نیم قبائلی علاقے حسن خیل میں عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں پاکستانی فوج کا ایک کیپٹن اور ایک حوالدار ہلاک ہوئے تھے۔
اس جھڑپ کے دوران سیکیورٹی فورسز نے پانچ مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک اور تین کو زخمی حالت میں گرفتار کیا تھا۔
خیبر پختونخوا کے افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں یہ جھڑپیں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب حکومتِ پاکستان نے دعویٰ کیا تھا کہ دو ماہ قبل بشام ڈیم منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کے قافلے پر حملے میں افغانستان کی سر زمین استعمال ہوئی ہے۔
اتوار کو وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ مؤقف دہرایا تھا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی سرحد پار کارروائیوں کے لیے افغان سر زمین استعمال کر رہی ہے اور کابل میں قائم طالبان حکومت سے ان کارروائیوں کو روکنے اور پاکستان پر حملوں میں ملوث افراد کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔
افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کے اس مطالبے پر کوئی ردِ عمل نہیں آیا ہے۔ البتہ ماضی میں وہ یہ اصرار کرتے رہے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی ہے۔
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں سال کے پہلے چار مہینوں کے دوران خیبر پختونخوا میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
خیبرپختونخوا کی پولیس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2024 کے چار ماہ کے دوران صوبے کے 14 اضلاع میں دہشت گردی اور گھات لگا کر قتل کرنے کے 378 واقعات ہوئے ہیں۔
دہشت گردی کے ان واقعات میں سیکیورٹی فورسز، پولیس، ایف سی، سیاست دانوں سمیت 144 عام شہری ہلاک اور 234 زخمی ہوئے ہیں۔