طالبان کا پاکستان اور ایران پر افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی کا عمل سست کرنے پر زور

  • سارہ زمان

افغان پناہ گزین ایک ٹرک کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی ریگستان سے واپس جا رہے ہیں۔ 24 دسمبر 2023

  • افغانستان نے پاکستان اور ایران سے کہا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے منظم طریقہ کار اختیار کریں۔
  • 2021 میں افغان جنگ کے خاتمے کے بعد سے پاکستان اور ایران 27 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیج چکے ہیں۔
  • پاکستان سے 8 لاکھ 25 ہزار پناہ گزین افغانستان واپس جا چکے ہیں۔
  • پاکستان سے ڈی پورٹ ہونے والے افغانوں کی تعداد صرف 40 ہزار ہے۔

افغانستان کے طالبان نے جمعرات کو پڑوسی ملکوں پاکستان اور ایران پر زور دیا ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ تحمل کا مظاہرہ کریں اور افغانستان کی اقتصادی مشکلات کو سامنے ر رکھتے ہوئے ان کی واپسی کے لیے ایک منظم طریقہ کار اپنائیں۔

افغانستان میں اگست 2021 میں امریکی قیادت کی 20 سالہ جنگ کے خاتمے کے بعد سے پاکستان اور ایران 27 لاکھ سے زیادہ افغان شہریوں کو ان کے آبائی ملک واپس بھیج چکے ہیں ۔

پناہ گزینوں اور وطن واپسی کے امور سے متعلق طالبان کے قائم مقام وزیر مولوی عبدالکبیر نے افغانستان میں پاکستان کے ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی اور افغانستان میں ایران کے سفیر علی رضا بیکدالی سے الگ الگ ملاقات کی۔

طالبان کے پناہ گزینوں اور وطن واپسی کے امور کے قائم مقام وزیر عبدل کبیر ( انتہائی دائیں) ایرانی سفیرعلی رضا بیکدالی سے ( بائیں سے تیسرے) کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں، پناہ گزینوں اور وطن واپسی کی افغان طالبان حکومت کا ایکس پر جاری ایک فوٹو

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں افغانستان کی وزارت نے کہا کہ کبیر نے امید ظاہر کی ہے کہ میزبان ممالک تحمل اور برداشت سے کام لیں گے۔

بیان میں کہا گیا کہ ،’اسلامک امارات افغان پناہ گزینوں کی ملک واپسی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ، لیکن ملک کے نامساعد حالات کے پیش نظر، میزبان ملکوں کو ان کی جبری بے دخلی کی بجائے واپسی کے منظم طریقے پر غور کرنا چاہیے اور ایک بتدریج طریقہ کار کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے‘۔

افغان شہریوں کی بے دخلی

پاکستان نے 2023 کے آخر میں سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والے غیرملکیوں کو بے دخل کرنے کی مہم شروع کی تھی ۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ہائی کمشنر کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 8 لاکھ 25 ہزار سے زیادہ افغان پاکستان سے جا چکے ہیں۔ تاہم صرف ایک چھوٹے سے حصے کو، جن کی تعداد 40 ہزار کے لگ بھگ ہے، ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔

پاکستان نے جنوری کے آخر میں تقریباً 30 لاکھ افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کے لیے ایک کثیر الجہتی منصوبے کی منظوری دی۔ اس منصوبے میں وہ تمام افراد شامل ہیں جنہیں قانونی طور پر پناہ گزین کہا گیا ہے، اس کے علاوہ ان میں دستاویزات رکھنے اور نہ رکھنے والے تارکین وطن کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں میں اپنی منتقلی کے منتظر ہیں۔

SEE ALSO: افغان شہریوں کو امریکہ منتقلی کی منظوری نہ ملنے پر پاکستان کا ملک بدر کرنے کا انتباہ

اس منصوبے میں قانونی دستاویزات رکھنے والے افغان تارکین وطن اور دستاویزات نہ رکھنے والے افغان شہریوں کو پہلے مرحلے میں وطن واپسی کے لیے کہا گیا ہے ۔ اس میں کسی تیسرے ملک میں از سر نو منتقلی کے متظر افغان شہریوں کو 31 مارچ تک اسلام آباد سے نکالنے کا بھی کہا گیا ہے ۔

گزشتہ جولائی میں پاکستان نے افغان پناہ گزینو ں کے لیے رجسٹریشن کے ثبوت کے کارڈز یا پی او آر کی30 جون 2025 تک توسیع کر دی تھی۔

افغان شہریوں کی بے دخلی سے متعلق حکومت کے جولائی کے منصوبے میں کہا گیا کہ پی او آر کارڈ رکھنے والوں سے بعد میں نمٹا جائے گا۔

ریلیف ویب کے نام سے کام کرنے والی ایک امدادی ویب سائٹ نے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران نے معاشی خدشات کی بنا پر 2022 سے 2024 کے دوران 18 لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کو ملک سے نکال دیا اور وہ اس سال مارچ تک 20 لاکھ افغانوں کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے۔

کبیر نے ایران اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ جب تک دوطرفہ میکانزم قائم نہیں ہو جاتے واپسی کی رفتار کو کم کریں۔

طالبان کے پناہ گزینوں کے امور کے قائم مقام وزیر مولوی عبدالکبیر( انتہائی دائیں ) پاکستان کے ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی(انتہائی بائیں) سے ملاقات کر رہے ہیں، پناہ گزینوں اور وطن واپسی سے متعلق افغان طالبان کی وزارت کا ایکس پر جاری ایک فوٹو

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں دو طرفہ اور سہ فریقی اجلاس منعقد کرنے کے لیے وقت دیا جانا چاہیے۔

افغان وزارت کی پوسٹ کے مطابق افغانستان میں پاکستان کے اعلیٰ سفارت کار نظامانی نے کہا کہ پناہ گزین کوئی سیاسی ہتھیار نہیں ہیں۔

پناہ گزینوں سے متعلق وزارت نے ایکس پر کہا ،‘انہوں نے (نظامانی )کہا کہ پاکستان کا مستقبل افغانستان سے منسلک ہے ، اس لیے وہ افغان پناہ گزینوں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرتا، بلکہ چاہتا ہے کہ مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔‘

اسلام آباد میں پاکستان کی وزارت خارجہ سے نظامانی کے تبصروں کی تصدیق کرنے کی ایک درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔

طالبان کی وزارت نے کہا کہ ایرانی سفیر بیکدالی نے مسئلے کے مستقل حل کا مطالبہ کیا ہے۔

SEE ALSO: افغانستان کے پڑوسی افغان پناہ گزینوں کو ملک سے نہ نکالیں : این آرسی

بیان میں بیکدالی کے حوالے سے کہا گیا ہے ، ’ ہم چاہتے ہیں کہ ایران میں غیر قانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو ضروری قانونی کاغذات فراہم کیے جائیں‘۔

ان کے تبصرو ں کے حوالے سے بیکدالی کے دفتر نے فوری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی ۔

پناہ گزینوں کے حقوق کے گروپس اور انسانی حقوق کے نگران گروپس ایران اور پاکستان پر بارہا زور دے چکے ہیں کہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ افغان پناہ گزینوں اور قانونی کاغذا ت نہ رکھنے والے تارکین وطن کے حقوق کا تحفظ کیا جائےاور انہیں افغانستان زبردستی واپس نہ بھیجا جائے جہاں کی معیشت بدحالی کا شکار ہے ، اکثریت کا انحصار امداد پر ہے اور جہاں خواتین کو حقوق اور آزادیوں کی بنیاد پر کئی مشکلات کا سامنا ہے ۔