افغانستان کے صوبے غزنی میں کار بم حملے میں آٹھ سیکورٹی اہل کاروں سمیت چودہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں، طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
حکام کے مطابق غزنی میں افغانستان کے حساس ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا، ہلاک ہونے والوں میں این ڈی ایس کے اہلکار اور عام شہری شامل ہیں.
غزنی میں محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اسپتال میں ایک بچے سمیت چودہ افراد کی لاشیں لائی گئیں ہیں جبکہ واقعے میں 180 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں قریب واقع اسکول کے 60 طلبا بھی شامل ہیں۔
محکمہ صحت کے حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ حملے میں این ڈی ایس کے متعدد افسران ہلاک ہو گئے ہیں۔
طالبان نے یہ حملہ ایسے وقت میں کیا ہے جب دوحہ میں قطر اور جرمنی کی میزبانی میں افغانستان کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے 50 سے زائد مندوبین افغانستان میں جنگ بندی کے لیے طالبان نمائندوں سے ملاقات کر رہے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اس ضمن میں مذاکرات کا ساتواں دور دوحہ میں جاری ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے غزنی دھماکے کی مذمت کی ہے۔ اپنے ٹویٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ دھماکے میں بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو قابل مذمت ہے۔
زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ جنگ اور تشدد کے خاتمے کے لیے قیام امن ناگزیر ہے۔
طالبان کے ایک اور ترجمان سہیل شاہین نے، جو دوحہ مذاکرات میں شامل ہیں، دھماکے میں شہری ہلاکتوں سے متعلق سوال پر بتایا کہ اس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ شہریوں پر حملے میں ملوث افراد کا تعین کر کے انھیں سزا دی جائے گی۔
حالیہ دنوں میں افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں طالبان نے کابل میں وزارت دفاع کی عمارت پر بھی حملہ کیا تھا۔
مذاکرات کے دوران امریکہ طالبان پر جنگ بندی کے لیے زور دیتا رہا ہے۔ تاہم طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ جب تک امریکہ اور اس کی اتحادی افواج افغانستان سے نہیں نکل جاتیں سیز فائر نہیں ہو گا۔
طالبان نے افغان سیکورٹی فورسز اور امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم طالبان کا کہنا تھا کہ وہ عام شہریوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔