حال ہی میں مشہور گلوکارہ رابی پیرزادہ کی ذاتی ویڈیوز لیک ہونے سے جہاں انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، وہیں کئی لوگوں کے ذہنوں میں اپنے ذاتی ڈیٹا سے متعلق خدشات نے بھی سر اٹھایا کہ ان کے موبائل فون میں موجود ڈیٹا کس حد تک محفوظ ہے اور اسے چوری ہونے یا غلط ہاتھوں میں جانے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟
پاکستان میں رائج سائبر کرائم قوانین کے تحت کسی کے موبائل یا کمپیوٹر سے ڈیٹا چرانا، بری نیت سے اسے پھیلانا یا اس میں کسی قسم کی مداخلت جرم شمار ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا تصاویر، ویڈیوز یا تحریری مواد اور کسی بھی دیگر صورت میں ہو سکتا ہے۔
SEE ALSO: رابی پیرزادہ نے شو بزنس چھوڑنے کا اعلان کردیاپاکستان میں سائبر کرائم کی شکایات میں ماضی کی نسبت اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے جس سے جہاں یہ پتا چلتا ہے کہ ملک میں سائبر کرائم سے متعلق آگہی بڑھی ہے، وہیں اس حقیقت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ معاشرے میں سائبر کرائم بڑھ رہے ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں سائبر کرائم قوانین کے تحت صرف ایک سال میں 7000 سے زائد شکایات درج کی گئی ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں دوگنی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ زیادہ تر شکایات خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق ہیں۔
البتہ، حکام کے بقول، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ درج شدہ تمام شکایات حقیقی بھی ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے مطابق، زیادہ تر شکایات کی تحقیقات جاری ہیں جس کے بعد اس بات کا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ملزمان پر مقدمہ درج کیا جائے یا نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایڈیشنل ڈائریکٹر 'ایف آئی اے' سائبر کرائم ونگ فیض اللہ کوریجو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان شکایات میں 900 کے قریب ایسے کیسز ہیں جو ابھی انکوائری کے مرحلے میں ہیں۔
فیض اللہ کوریجو کے بقول، سائبر کرائم کے زیادہ تر واقعات شہری علاقوں میں رپورٹ ہوتے ہیں جن میں سے بیشتر میں بلیک میلنگ اور ہراساں کیے جانے کی شکایات ہوتی ہیں۔
حکام کے مطابق، ان کیسز میں صنفی بنیاد پر اضافہ سب سے اہم عنصر ہے جس میں خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق زیادہ کیسز رپورٹ کیے جا رہے ہیں۔
فیض اللہ کوریجو کا کہنا تھا کہ اگر اس کے پس منظر میں جائیں تو اس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا اور مختلف موبائل ایپلی کیشنز کا غلط یا غیر محفوظ استعمال ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین کو معلوم نہیں ہوتا کہ موبائل ایپلی کیشنز کے استعمال میں کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی سے وہ بلیک میلنگ اور ہراسگی کا شکار ہو جاتی ہیں اور بعض کیسز میں تو بات خودکشی تک جا پہنچتی ہے۔
SEE ALSO: آن لائن توہین مذہب کو سائبر کرائم میں شامل کرنے کی ترمیم منظورخیال رہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے حامل اسمارٹ فونز اور موبائل فون ایپلی کیشنز کے ذریعے یہ ممکن ہے کہ ویڈیو کال کے دوران صارف کی تصاویر بنائی جا سکے یا ویڈیو ریکارڈ کی جا سکے۔ ان تصاویر کو باآسانی فوٹو شاپ کی مدد سے ایڈٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ موبائل ایپلی کیشنز سے ہی فون کرنے والے کی لوکیشن بھی معلوم کی جا سکتی ہے۔
لہٰذا، وہ خواتین جو سوشل میڈیا، موبائل اور ایپلی کیشنز کے سیکورٹی فیچرز سے ناواقف ہوں، انہیں کوئی بھی شخص فرینڈ ریکویسٹ بھیج کر یا ان سے معلومات حاصل کرکے انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ معاشرے میں یہ رجحان غالب ہے کہ ترمیم شدہ تصاویر کو ہی حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے جس کا منفی اثر خواتین کی ذاتی زندگیوں پر پڑتا ہے۔
فیض اللہ کوریجو کے مطابق، فراڈ اور دھوکہ دہی کے واقعات بھی اب انٹرنیٹ پر عام ہونے لگے ہیں جس کے باعث لوگوں کو بھاری نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ ان کے بقول، لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں انٹرنیٹ پر جو سنہری خواب دکھائے جا رہے ہیں، چاہے وہ لاٹری کی صورت میں ہوں، نوکری کی پیشکش ہو یا کسی اور شکل میں، وہ حقیقت ہیں۔ لیکن درحقیقت وہ سچے نہیں ہوتے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹل ڈیٹا بہت جلد مٹایا، نقل، تبدیل یا حذف کیا جا سکتا ہے۔ لوگ جعل سازوں کے جھانسوں میں آکر دھوکہ دہی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایسے سیکڑوں کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں لوگوں نے انٹرنیٹ فراڈ میں اپنی جمع پونجی گنوا دی ہے۔
SEE ALSO: بینکوں اور مالیاتی اداروں سے بڑے پیمانے پر صارفین کا ڈیٹا چوری'ایف آئی اے' حکام کے مطابق، ملک میں سائبر کرائم کی شرح میں سالانہ 50 فی صد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ سندھ کی طرح پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے بھی سائبر کرائم کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔
حکام کے مطابق، شکایات میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں گزشتہ 10 برسوں میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے۔
'ایف آئی اے' حکام کے بقول، انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کی سہولت دینے کے بعد ہوا ہے اور یہیں سے مجرمانہ ذہن رکھنے والے افراد بھی اس ٹیکنالوجی کی جانب راغب ہوئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ سندھ میں سائبر کرائم ونگ کے تحت رواں سال ’چائلڈ پورنو گرافی‘ سے متعلق بھی تین مقدمات درج کیے گئے ہیں جب کہ متعدد ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن کے مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔
SEE ALSO: ’اگر بچے محفوظ نہ ہوں تو پھر ترقی کا کوئی فائدہ نہیں‘البتہ، سائبر کرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات سے نمٹنے اور ان کے حل کے لیے 'ایف آئی اے' کے عملے کی استعدادِ کار بڑھانے، وسائل فراہم کرنے اور انسانی وسائل کی جدید خطوط پر تربیت کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
سائبر کرائم کی شکایات کیسے درج کی جاسکتی ہیں؟
اگر کسی شہری کو انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے، فراڈ، دھوکہ دہی یا اس طرح کی کوئی اور شکایت ہو تو وہ 'ایف آئی اے' کی ویب سائٹ پر موجود سائبر کرائم شکایات سیل کا ایک فارم پر کر کے اسے آن لائن جمع کرا سکتا ہے۔ یہ ایک انتہائی آسان عمل ہے۔ اس کے علاوہ شہری اپنی شکایات تحریری طور پر 'ایف آئی اے' کے دفاتر میں بھی جمع کرا سکتے ہیں۔
درخواست موصول ہونے کے بعد شکایت کنندہ کو 'ایف آئی اے' کے طلب کرنے پر مجاز افسر کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے اور اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے متعلق تفتیشی افسر کو ثبوت مہیا کرنے ہوتے ہیں۔
SEE ALSO: 'ہیٹ اسپیچ' کیا ہے اور پاکستان کا قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے؟'ایف آئی اے' کا افسر شکایت اور شواہد کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس پر سائبر کرائم قانون کے تحت کیا کارروائی کی جاسکتی ہے۔
کئی معاملات انکوائری کی سطح پر ہی حل ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر تفتیشی افسر کو یہ یقین ہو کہ یہ معاملہ واقعتاً قانون کی گرفت میں آتا ہے تو انکوائری مکمل کر کے ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اور معاملہ عدالت میں چلا جاتا ہے۔
'ایف آئی اے' کے سائبر کرائم کا مانیٹرنگ یونٹ اسلام آباد میں واقع ہے جو آن لائن ہونے والی غیرقانونی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے۔ یہ یونٹ پیمرا، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔
پاکستان میں الیکٹرونک کرائمز کے قوانین
پاکستان میں سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے 2002 میں قانون متعارف کرایا گیا تھا، جسے ناقدین مبہم قرار دیتے ہیں۔ لیکن 2016 میں پارلیمنٹ نے ایک نیا قانون منظور کیا جسے پاکستان الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2016 یا ’پیکا‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت تین ایسے جرائم ہیں جس میں 'ایف آئی اے' براہِ راست گرفتاری بھی عمل میں لا سکتی ہے۔ ان میں بچوں کی اخلاق باختہ تصاویر بنانے اور انہیں پھیلانے، سائبر دہشت گردی اور قومی شخصیات کی تصاویر کو تبدیل کرکے ان کی شخصیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے جیسے جرائم شامل ہیں۔
SEE ALSO: 'غیر ضروری موبائل فون پیغامات ہراسگی میں شمار ہوں گے'اس قانون کے تحت باقی جتنے بھی جرائم ہیں ان پر 'ایف آئی اے' حکام تحقیقات کے بعد عدالت کی اجازت پر ہی ایف آئی آر درج کر سکتے ہیں۔ ان دیگر جرائم میں ہیکنگ، ڈیٹا چوری کرنا، ہراساں کرنا، فراڈ اور دھوکہ دہی، وائرس پھیلانا، کسی کی آئی ڈی یا پاس ورڈ چوری کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سائبر کرائم سے بچنے کے لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا محفوظ استعمال ممکن بنانا ضروری ہے۔ ایسے واقعات کی شکایت فوری درج کرانی چاہیے تاکہ ملزمان کا بروقت سراغ لگا کر انہیں قانون کی گرفت میں لایا جا سکے۔