رسائی کے لنکس

ویب سائٹس اور بلاگز بھی سینسر شپ کے نشانے پر ہیں


’’جنوری 2017 میں بلاگرز کی جبری گمشدگی کے جو واقعات رونما ہوئے تھے اور پھر ان کی واپسی کے، اس کے بعد یہ کہنا کہ متبادل میڈیا کسی قسم کے دباؤ میں نہیں، یہ درست نہیں ہوگا۔‘‘

اس سال کے شروع سے جب پرنٹ میڈیا کو شدید سینسر شپ کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستانی صحافت میں نو وارد بلاگز، ویبسائٹس اور نیوز پورٹلز، جنہیں متبادل میڈیا بھی کہتے ہیں نے صحافیوں کے مسترد شدہ کالم لگانا شروع کر دئے جس کی وجہ سے بقول ناصر کاظمی ’’ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی‘‘ کا گماں ہونے لگا۔

وائس آف امریکہ نے اس متبادل میڈیا کی ویب سائٹس اور نیوز پورٹلز میں سے ’ہم سب‘ اور ’نیا دور‘ کے مدیران سے گفتگو کی اور یہ جاننا چاہا کہ ان ویب سائٹس کو سنسر کے اس زمانے میں کن مشکلات کا سامنا ہے۔

ممتاز صحافی اور دانشور وجاہت مسعود جو ’ہم سب‘ اردو ویب سائٹ کے مدیر ہیں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جنوری 2017 میں بلاگرز کی جبری گمشدگی کے جو واقعات رونما ہوئے تھے اور پھر ان کی واپسی کے، اس کے بعد یہ کہنا کہ متبادل میڈیا کسی قسم کے دباؤ میں نہیں، یہ درست نہیں ہوگا۔

اس سوال کے جواب میں کہ کس قسم کے موضوعات شجر ممنوعہ ہیں وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ کچھ معاملات سیکیورٹی کے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں، خارجہ امور سے، یا مذہبی حساسیت کے معاملات ہیں۔ ایسے موضوعات پر جیسا دباؤ مین اسٹریم میڈیا پر ہے وہی دباؤ متبادل میڈیا پر بھی ہے۔

’نیا دور‘ نیوز پورٹل کے مدیر، صحافی اور تجزیہ نگار رضا رومی نے بتایا کہ بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن پر غیر اعلانیہ پابندیاں ہیں۔ اس پر ہمیں بہت دھیان سے چلنا پڑتا ہے کیوں کہ ہماری ویب سائٹ غالباً پشتون تحفظ موومنٹ کی وجہ سے بند کر دی گئی تھی کیوں کہ ہم اس تحریک کو ’ولن‘ کے طور پر پیش نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ مظلوم حلقے کی فریاد کے طور پر دکھا رہے تھے۔ اور اس کو ہم کووریج دے رہے تھے جبکہ مین اسٹریم میڈیا ایسا نہیں کر رہا تھا۔

اس بارے میں رضا رومی کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا سائبر کرائم لا ریاستی اداروں کو بہت زیادہ طاقت دیتا ہے، خصوصاً پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو کہ وہ جس مواد کے بارے میں سمجھے کہ وہ ملک کے مفاد کے خلاف ہے اس کو بند کر سکتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے مفاد کا تعین کون کرے گا؟‘‘

صحافی فواد حسن، جنہیں ماضی میں سنسر شپ کا سامنا رہا ہے کا خیال ہے کہ یہ ادارے بھی سنسرشپ کے دور میں محفوظ نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اکثر بلاگز ریاستی اداروں کی کالز کی وجہ سے اتار لئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہاں تک کہ لکھاری کو بائیکاٹ تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ان ویب سائٹس کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ اگر ہم یہ حساس موضوعات پر لکھا تو اس سے ریاستی ادارے ہیں خفا ہو جائیں گے۔ تو وہاں سے بھی ہمیں سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فواد کا کہنا ہے کہ میرا اپنا تجربہ یہ رہا کہ گیٹ کیپنگ میں مدیر ہی منع کر دیتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ایک آرٹیکل میں نے نیا دور میں لکھا تو اسے بند کر دیا گیا۔

فواد نے بتایا کہ جبری طور پر گمشدہ افراد کے بارے میں رپورٹنگ پر مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ تو کر سکتے ہیں، یہ بھی اخبارات میں آ جاتا ہے کہ فلاں شخص کو مبینہ طور پر ریاستی اداروں نے اٹھا لیا ہے مگر مسلسل اس پر فالو اپ دینا، رپورٹنگ کرنا، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

فواد کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی اداروں کی کاروباری سرگرمیوں پر بھی بات نہیں ہو سکتی۔

دی نیوز کی ڈپٹی ایڈیٹر زیب النسا برکی کہتی ہیں کہ یہ ضرور ہے کہ یہ سوشل میڈیا بیسڈ نیوز پورٹلز عموماً ترقی پسندانہ موقف لیتے ہیں اور یہ اپنی جگہ بڑھا رہے ہیں مگر سنسرشپ تو اب ہر جگہ ہے، وہ مین اسٹریم ہو، آن لائین میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ہو۔ ہاں ان لوگوں کے پاس ابھی اتنی گنجائش ہے کہ یہ پھر بھی کچھ کہہ سکتے ہیں جو مین اسٹریم میڈیا نہیں کہہ سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ لکھاریوں کو اتنا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ جو ان آن لائن ویب سائٹس کے مدیران ہیں وہ بھی چوکنا ہو جاتے ہیں ’’کیونکہ پھر جو جگہ ہے وہ بھی چھننے کا خدشہ ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ معاشرے میں ایکشن سے زیادہ، ری ایکشن کا خوف ہے، کہ جو ہم لکھیں گے اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ اس لئے فضا اتنی دم گھٹنے والی بنا دی گئی ہے کہ کوئی سوچے بھی نہ کہ میں کوئی نئی چیز لاؤں۔

مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے دو برس پہلے ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’’ہمارے ملک میں چیخ و پکار آپ روز ٹی وی پر سنتے ہیں، مگر واقعتاً بولتا کوئی نہیں ہے۔ وہاں پر چیخ و پکار ضرور ہے، لیکن لوگوں کی آوازیں بند ہیں‘‘۔

XS
SM
MD
LG