پاکستان اور افغانستان میں سرحدی گزرگاہیں بند ہونے سے سرحد پار پھنسے پاکستانی طورخم بارڈر پر پہنچ کر وطن واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کرونا وائرس کے باعث سرحدی گزرگاہوں کی بندش سے افغانستان میں پھنسے اکثر پاکستانیوں کا تعلق سرحد سے ملحقہ قبائلی ضلعے خیبر سے بتایا جا رہا ہے۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما بھی روایتی جرگے کی مدد سے حکومت سے ان لوگوں کی جلد از جلد واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سینیٹر تاج محمد آفریدی جو ایوان بالا (سینیٹ) میں سرحدی علاقوں کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں، نے اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کو خط بھی لکھا ہے۔
افغانستان سے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں بالخصوص کابل اور جلال آباد میں پھنسے درجنوں افراد اتوار کو طورخم پہنچ گئے تھے جب کہ انہوں نے پاکستان واپسی کے لیے مظاہرہ بھی کیا۔
مظاہرین کو سرحدی حکام نے بتایا کہ ابھی تک اسلام آباد یا پشاور سے ان کی واپسی کے لیے کوئی احکامات جاری نہیں ہوئے۔
بعد ازاں افغان سیکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو لاٹھی چارج کرکے پیچھے دھکیل دیا۔ یہ افراد کابل اور جلال آباد واپس جانے کے بجائے ابھی تک طورخم سرحد کے قریب رکے ہوئے ہیں۔ طورخم کے اُس پار پر رہنے سہنے کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔
طورخم ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ بدھ کو تین بیمار افراد کو انسانی ہمدردی کے بنیاد پر پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔ تین میں سے دو افراد کی کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جب کہ ایک شخص وبا کا مشتبہ مریض ہے۔ تینوں کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
جلال آباد کے میڈیکل کالج کے طالب علم پاکستان میں ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے کامران خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرحدی گزرگاہوں کی بندش کے نتیجے میں پھنسے والوں میں اکثریت تو ڈرائیورز اور تاجروں کی ہے۔ تاہم طلبہ، نجی تعلیمی اداروں سے منسلک اساتذہ، بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے والے ماہرین بھی پھنسنے والوں میں شامل ہیں۔
نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے بخت روان نے بتایا کہ پاکستان اور دیگر ممالک کی طرح افغانستان میں بھی کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن جاری ہے۔
ان کے مطابق تمام تر سرگرمیاں معطل ہے۔ اسی وجہ سے پھنسنے والے پاکستانی باشندوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔۔
طورخم سرحد پر موجود ایک اور پاکستانی نور ولی شاہ نے بتایا کہ کئی پاکستانی باشندے بھی ہیں کیوں کہ یہ لوگ خراب موسم میں طورخم سرحد پر موجود ہیں جب کہ کئی افراد کابل اور جلال آباد میں پاکستان کے سفارت خانوں کے سامنے کھلے آسمان تلے راتیں گزار رہے ہیں۔
کامران خان نے کہا کہ وہ روزانہ پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کرتے ہیں مگر یہ لوگ بھی اسلام آباد اور پشاور کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
ایک روز قبل 'تنظیم نوجوانان قبائل' نے لنڈی کوتل میں سرحد پار افغانستان میں رکے ہوئے پاکستانی باشندوں کی واپسی کے لیے ایک مظاہرہ کیا تھا جب کہ بدھ کو لنڈی کوتل میں مقامی سیاسی رہنماؤں کے اتحاد کا اجلاس ہوا۔
'خیبر سیاسی اتحاد' کے اجلاس میں جماعت اسلامی ضلع خیبر کے رہنما مراد حسین، عوامی نیشنل پارٹی کے صدر شاہ حسین شینواری، پاکستان پیپلز پارٹی کے ملک زادہ ندیم، مسلم لیگ (ن) کے ساجد آفریدی، قومی وطن پارٹی کے ذاکر آفریدی جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے عبدالرزاق شینواری نے شرکت کی ۔
اجلاس میں متفقہ طور پر یہ مطالبہ کیا گیا کہ حکومت افغانستان میں پھنسے مسافروں کو مرحلہ وار سرحد پار سے پاکستان لائے اور ان مسافروں کو قرنطینہ سینٹر منتقل کیا جائے جب کہ ان کے کرونا ٹیسٹ بھی کیے جائیں۔
خیال رہے کہ حکومت نے لنڈی کوتل میں طورخم بارڈر کے قریب سیکڑوں بستروں پر مشتمل قرنطینہ سینٹر بنایا ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ چمن اور طورخم بارڈر پر پاکستانیوں کے پاس کھانے پینے کا خرچہ ختم ہو گیا ہے۔ اسپین بولدک اور طورخم کت درمیان 1500 پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جب کہ یہ پاکستانی دو یا تین دن میں باآسانی یہ سرحد پار آ سکتے ہیں۔
اجلاس میں کہا گیا کہ حکومت ایک سیاسی عہدیدار کے کہنے پر تفتان بارڈر سے ہزاروں کی تعداد میں زائرین کو ملک کے تمام کونوں تک پہنچا سکتی ہے تو اسپین بولدک اور طورخم میں ایک مہینے سے پھنسے مسافروں کو کیوں اجازت نہیں دی جا رہی۔
قبائلی اضلاع کے سینیٹرز، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی پر زور دیا گیا کہ جلد از جلد اس سلسلے میں اعلیٰ حکام سے مذاکرات کریں اور اپنا کردار ادا کریں۔
ادھر ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سینیٹر تاج محمد آفریدی نے سرحد پار افغانستان میں پھنسے پاکستانی باشندوں کی واپسی کے لیے وزیر اعظم عمران خان کو ایک خط لکھا ہے۔ جس میں ان لوگوں کی واپسی کے لیے فوری طور پر اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر محمود اسلم وزیر نے گزشتہ ہفتے افغان باشندوں کی واپسی مکمل ہونے کے بعد ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ افغانستان میں پھنسے پاکستانیں کی واپسی کے لیے تمام تر انتظامات مکمل ہیں مگر ابھی وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی واضح اعلان نہیں کیا۔