افغانستان کے صدر اشرف غنی اور پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سرحد پر تجارتی سامان کی نقل و حرکت کی سہولت کے لیے ضروری اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔
افغان صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق صدر اشرف غنی اور جنرل باجوہ کے درمیان جمعرات کو ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس کے دوران دونوں رہنماؤں نے بین الافغان مذاکرات کے علاوہ کرونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال، تجارت کے لیے سرحد کھولنے سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
تاہم پاکستان فوج کی طرف سے افغان صدر اشرف غنی اور جنرل باجوہ کے درمیان ہونے والے رابطے کے بارے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
اشرف غنی اور پاکستان فوج کے سربراہ کے درمیان یہ رابطہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب دونوں ملکوں کو کرونا وائرس کے چیلنج کا سامنا ہے اور عالمی وبا کے پھیلاؤ کے پیشِ نظر پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بند کر رکھی ہے۔
افغان صدارتی دفتر سے جاری بیان کے مطابق صدر غنی اور جنرل باجوہ نے کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے لیے عالمی اور علاقائی مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔
سرحد پار افغانستان کے لیے تجارتی سامان کی نقل و حرکت کی سہولت کے لیے ضروری اقدامات پر بھی اتفاق کیا ہے تاکہ افغان تاجر اپنا تجارتی سامان سرحد پار لے جا سکیں۔
یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت طورخم اور چمن بارڈر کے ذریعے ہوتی ہے۔ سرحد کی بندش کی وجہ سے تجارتی سامان سے لدے ٹرک سرحد کی دونوں جانب موجود ہیں۔
پاکستان میں تعینات افغانستان کے سفیر عاطف مشعال نے بھی حال ہی میں پاک افغان سرحد کو عارضی طور پر کھولنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ پاکستان میں پھنسے ہوئے افغان خاندان اپنے ملک جا سکیں۔
'سرحد نہ کھولی گئی تو بڑے نقصان کا خدشہ ہے'
دوسری جانب پاکستان اور افغانستان کی کاروباری برداری بھی کرونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے پاک افغان سرحد کے آر پار محدود تجارت کی اجازت دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
پاکستان افغانستان چیمبر آف کامرس کے صدر زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت اشیاء خور و نوش اور پھلوں کے تقریباً 800 ٹرک پاک افغان سرحد کے آر پار پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر سرحد کو جلد نہ کھولا گیا تو یہ سامان خراب ہو سکتا ہے۔
انہوں نے صدر غنی اور جنرل باجوہ کے درمیان سرحد کے آر پار باہمی تجارتی معاملے کو حل کرنے سے متعلق ہونے والی گفتگو کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ سرحد کو کھولنے سے کاروباری برداری کی مشکلات میں کمی آئے گی۔