کرونا وائرس نے جہاں کرہ ارض کے باسیوں کو ایک خوف، ایک ہیجان اور ایک نامعلوم سی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ وہیں کاروباری نقصانات، لوگوں کے لئے اشیائے صرف کی قلت اور روزانہ کی بنیادوں پر کام کرنے والوں کی آمدنی کے ذرائع جیسے مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔ خاص طور پر غریب ممالک کے لئے یہ مسائل روز بروز سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔
کچھ اسی قسم کی صورت حال افغانستان کی بھی ہے، جہاں کی روزمرہ زندگی کا انحصار پاکستان سے اور پاکستان کے راستے دوسرے ملکوں سے آنے والے سامان پر ہے۔
خود پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے جو کبھی دو اعشاریہ سات ارب ڈالر کی تجارت ہوا کرتی تھی اور اب حالات کے سبب گھٹ کر ایک اعشاریہ پانچ ارب پر آگئی ہے، جو کرونا کے سبب مزید کم ہو رہی ہے۔ اور اس بیماری کے سبب پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں جس طرح ایران وغیرہ کے ساتھ کی ہیں۔ اس سے دونوں جانب کے لوگوں کے لئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ تاہم، حکومت پاکستان کا موقف یہ ہے کہ یہ انسانی زندگیوں کو بچانے کا معاملہ ہے۔
افغانستان سے ملنے والی چمن کی سرحد کی صورت حال کے بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فیڈریشن آف پاکستان، افغانستان چیمبر آف کامرس کے سابق صدر دارو خان نے بتایا کہ یہ سرحد دو مارچ سے بند ہے۔ لیکن دو روز قبل نوے ایسے ٹرکوں کو افغانستان بھیجنے کے لئے سرحد کھولی گئی جن پر کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ اس معاملے کو انسانی بنیادوں پر دیکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے حکام رابطے میں ہیں۔ لیکن، تاجر اور اس تجارت سے وابستہ لوگ اس کا مستقل حل چاہتے ہیں، کیونکہ یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ کرونا کی وبا سے کب نجات ملے گی۔
ادھر کابل سے ایک افغان صحافی انیس الرحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں افغان وزارت خزانہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ فی الحال تو افغانستان میں کچھ اسٹاک موجود ہے۔ تاہم، انیس الرحمان کا کہنا تھا کہ اسٹاک آخر کب تک چل سکتا ہے دوسرا بڑا مسئلہ ان افغان لوگوں کا ہے جو علاج معالجے کے لئے پاکستان جاتے ہیں، جو بالکل بند ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان سے ملنے والی طورخم سرحد بھی سولہ مارچ سے بند ہے۔
دریں اثنا، پاکستان افغانستان چیمبر آف کامرس کے صدر زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ صرف سرحدیں ہی بند نہیں ہیں، بلکہ سندھ میں لاک ڈاؤن ہے اور علاقے فوج کے حوالے کردئے گئے ہیں، چنانچہ کراچی کی بندرگاہ کھلی ہونے کے باوجود ٹرک سامان لیکر چمن یا طورخم نہیں جا سکتے۔ لیکن، انہوں نے کہا کہ حکومت اور اداروں سے بات چیت کے نتیجے میں توقع ہے کہ ایسا انتظام ہو جائے گا کہ ٹرک بندرگاہ سے سامان لیکر نکل سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ خوراک اور دیگر سامان پہنچانے کے لئے طورخم سرحد کو بھی مختصر مدت کے لئے کھولا گیا تھا۔ لیکن، مزید ہر قسم کی آمد و رفت قطعی بند ہے۔ زبیر موتی والا نے کہا کہ پاکستان انسانی بنیادوں پر اس مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے اور ایک ایسا طریقہ وضع کرنے کی کوشش ہے کہ کرونا سے متاثر ٹرک ڈرائیور اور انکے ساتھ کام کرنے والا عملہ سرحد کی جانب سے دوسری جانب جا اور آ سکیں۔ اور انہوں نے کہ اسکا بہترین طریقہ یہی ہے کہ دونوں سرحدوں پر ٹیسٹنگ کا مربوط نظام قائم کیا جائے اور ہر آنے اور جانے والے ٹرک ڈرائیور اور کلینروں کو آتے اور جاتے ہوئے چیک کر لیا جائے کہ وہ صحتمند ہیں۔
سرحدوں پر ٹرک جمع ہیں۔ تجارت رکی ہوئی ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک مین بھی یہی صورت حال ہے اور اب کیا ہو گا؟ اسکا جواب دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے۔