|
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے بدھ کے روز کہا کہ ان کا ملک فلسسطینیوں کی غزہ سے نقل مکانی میں حصہ نہیں لے گا ، جو نا انصافی کا ایک ایسا عمل ہہوگا جس سے مصر کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔
انہوں نے یہ بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے قاہرہ کےلیے اس تجویز پر اپنے پہلے عوامی رد عمل میں کہی جس میں کہا گیا تھا کہ مصر غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو اپنے ملک میں لے لے ۔
سیسی نے مصر کے دورے پر آئے ہوئے کینیا کے صدر ولیم روٹو کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مصر دو ریاستی حل کی بنیاد پر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
ٹرمپ نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ مصر اور اردن کو چاہئے کہ وہ فلسطینیوں کو غزہ سے اپنے ملکوں میں لے لیں۔ امریکی صدر نے 15 ماہ کی اسرائیلی بمباری کے بعد ،جس نے غزہ کے 23 لاکھ افراد میں سے بیشتر کو بے گھر کر دیا ،غزہ کو ایک " تباہ شدہ مقام " قرار دیا ۔
SEE ALSO: ٹرمپ کا مصر اور اردن سے غزہ کے مزید فلسطینی قبول کرنے کا مطالبہسیسی نے کہا، ’’فلسطینیوں کی نقل مکانی کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے ، مصر کی قومی سلامتی پر اس کے اثر انداز ہونے کےباعث اسے کبھی بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ’’فلسطینی عوام کی ملک بدری یا نقل مکانی ایک ناانصافی ہے جس میں ہم حصہ نہیں لے سکتے۔‘‘
سیسی نے کہا کہ اگر انہوں نے مصری عوام سے ٹرمپ کی تجویز کے بارے میں پوچھا تو وہ فلسطینیوں کی نقل مکانی کو مسترد کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔
اردن میں پہلے ہی کئی لاکھ فلسطینی مقیم ہیں جبکہ ہزاروں مصر میں رہتے ہیں۔ مصر اور اردن ، دونوں ملکوں کی خارجہ امورکی وزارتیں حالیہ دنوں میں ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کر چکی ہیں۔
SEE ALSO: مصر اور اردن نے فلسطینی پناہ گزین قبول کرنے کی تجویز مسترد کردیسیسی نے کہا، ’’دو ریاستی حل ایک تاریخی حق ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
" انہوں نے مزید کہا کہ صدرٹرمپ " مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور مستقل امن کے لیے اس مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں ۔‘‘
فلسطینیوں کے لئے غزہ کے علاقے سے ، جسے وہ ایک آزاد ریاست کا حصہ بنانا چاہتے ہیں، نکلنے کی کوئی بھی تجویز فلسطینی قیادت کے لیے کئی نسلوں سے انتہائی ناپسند یدہ رہی ہے اور اکتوبر 2023 میں غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے پڑوسی عرب ریاستوں نے اسے بار بار مسترد کیا ہے۔
ٹرمپ نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ ہفتے کے آخر میں سیسی کے ساتھ بات کریں گے لیکن ان کے بجائے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے مصری ہم منصب سے غزہ کے بارے میں ، ٹرمپ کے منصوبے کا کوئی ذکر کیے بغیر بات کی۔
واضح ہو کہ غزہ جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گرد حملے کی وجہ سے ہوا تھا. امریکہ اور بعض یورپی ممالک نے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملے میں 1200 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھےاور تقریباً 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
اسرائیل کی جوابی کارروائی میں حماس کے زیرِانتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 47 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے درمیان 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ کے باعث غزہ کا زیادہ تر علاقہ ملبے اور کھنڈرات میں بدل چکاہے۔
اس وقت فریقین کے درمیان جنگ بندی کے بعد نقل مکانی کرنے والے فلسطینی پنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔