سندھ کی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں ایک اور ضلعے کا اضافہ کرکے کراچی میں اضلاع کی تعداد سات کر دی جائے۔
جمعرات کو صوبائی کابینہ کو بتایا گیا کہ کراچی کے موجودہ ضلع غربی کی آبادی اس وقت 39 لاکھ سے زائد ہے۔ اس لحاظ سے یہ صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہے۔
کابینہ نے ضلع غربی کے علاقوں کیماڑی، سائٹ، بلدیہ، ہاربر ایریا اور ماڑی پور کے علاقوں پر مشتمل ایک نئے ضلعے کیماڑی کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ تاہم کابینہ نے ضلع خیرپور کو مزید تقسیم کرنے کی تجویز منظور نہیں کی۔
کراچی کے انتظامی معاملات اس قدر خاموشی اور تیزی سے تبدیل کرنے پر سیاسی جماعتوں نے سخت ردِ عمل جب کہ سیاسی تجزیہ کاروں نے حیرانگی کا اظہار کیا ہے۔
سندھ اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما خرم شیر زمان نے اسے قوانین کے برخلاف عمل قرار دیا ہے۔
خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ عوامی سماعت مقرر کیے بغیر ہی ان علاقوں پر مشتمل ضلع بنا دیا گیا جہاں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ووٹرز کی تعداد زیادہ تھی تاکہ بلدیاتی نظام کی مدت مکمل ہونے کے بعد من پسند ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ بلدیاتی نظام کی مدت 29 اگست کو مکمل ہو رہی ہے۔
خرم شیر زمان نے مزید کہا کہ مالی فوائدکا حصول، ملازمتوں کی بندر بانٹ اور پھر نئے بلدیاتی نظام کے تحت انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اپنا مئیر منتخب کرانے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) صوبائی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور سندھ میں برسرِ اقتدار پیپلز پارٹی کی حکومت کے درمیان کراچی میں ترقیاتی کاموں میں تعاون کے لیے کو آرڈینیشن کمیٹی کے قیام پر بدھ کے روز ہی طویل مشاورت کے بعد اتفاق ہوا تھا جس کے اگلے ہی روز بعد کراچی میں نئے ضلع کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
دونوں جماعتوں میں شدید اختلافات کے باوجود 2018 میں عام انتخابات کے نتیجے میں مرکز اور صوبے میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد پہلی بار یہ اتفاق رائے سامنے آیا ہے جس کے تحت تحریک انصاف کی وفاقی حکومت صوبائی دارالحکومت کراچی کے مسائل کے حل میں زیادہ فعال ہوئی ہے۔
چھ رکنی کوآرڈینیشن کمیٹی کا سربراہ اگرچہ کسی کو نہیں بنایا گیا تاہم کمیٹی نے آئندہ دو ہفتوں کے دوران کراچی کے لیے اہم ترین منصوبوں کو شارٹ لسٹ، منصوبوں کی تکمیل کے لیے درکار سرمائے کے ذرائع تلاش کرنا اور قانونی موشگافیوں کو دور کرنے کی تجاویز ترتیب دینا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بدھ کو وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی سربراہی میں سندھ حکومت کے وفد اور وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر اسد عمر کی سربراہی میں ہونے والی ملاقات کے درمیان کمیٹی کے قیام اور اس کے کرنے کے کام کے حوالے سے فیصلے کیے گئے۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت سے اگرچہ تحریک انصاف کے شدید سیاسی اختلافات ہیں مگر ان کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ترقیاتی کاموں اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے دونوں جماعتیں متفق ہوگئی ہیں۔
اسد عمر کے بقول وزیرِ اعلیٰ سندھ سے ہونے والی بات چیت کے تحت پہلے مرحلے میں کراچی اور پھر سندھ کے دوسرے حصوں کے لیے بھی وفاقی حکومت مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہوگی۔
تاہم وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ اس اتفاق رائے کا احتسابی عمل سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے اس متعلق ہونے والے تبصروں اور تجزیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ احتساب کے معاملے پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔
کراچی کے بڑے حل طلب مسائل ہیں کیا؟
تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت کے مطابق کراچی کے بڑے مسائل جن میں پانی، سیوریج، ٹرانسپورٹ اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے فوری حل کے لیے وہ سندھ حکومت کے ساتھ مل کر حکمت عملی بنا رہی ہے۔
پینے کے پانی کی کمی
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پانی کا مسئلہ سب سے بڑا تصور کیا جاتا ہے۔ شہر میں 2006 کے بعد پانی لانے کا مزید کوئی منصوبہ اب تک مکمل نہیں ہو پایا ہے۔ یعنی 13 سال میں آبادی بڑھنے کی رفتار تو 2.49 فی صد سالانہ رہی، لیکن آبادی میں اضافے کی ضروریات کے مطابق پانی کی فراہمی میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکا۔
شہر کو اس وقت بھی اس کی ضرورت کا محض 55 فی صد پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کراچی کو اس وقت 60 کروڑ گیلن پانی یومیہ فراہم کیا جا رہا ہے جب کہ اس ضرورت ایک ارب 15 کروڑ گیلن یومیہ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
شہر کو اضافی 65 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی کے بڑے منصوبے کا پہلا مرحلہ جس میں 26 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی ممکن بنائی جانی ہے وہی تعطل کا شکار ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جس کی پہلی وجہ منصوبے کی لاگت میں بے تحاشہ اضافہ اور پھر اس کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلیاں اور مبینہ بد انتظامی شامل ہے۔
وفاق اور صوبائی حکومت میں اس سے قبل اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 50، 50 فی صد رقم مہیا کرنے پر اتفاق ہوا تھا لیکن منصوبے میں تاخیر پر اس کی لاگت 30 ارب روپے سے بڑھ کر 75 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ وفاقی حکومت مصر تھی کہ وہ پہلے سے طے شدہ کل لاگت کا ہی 50 فی صد کام کی رفتار کے مطابق ادا کرے گی۔
سیوریج کے مسائل
کراچی میں پانی کے مسائل سے جڑا ہی ایک اور مسئلہ سیوریج کا بھی ہے۔
شہر میں پیدا ہونے والے 50 کروڑ گیلن سیوریج کے پانی میں سے محض 5 کروڑ گیلن پانی ہی ٹریٹمنٹ کے بعد سمندر میں گرایا جاتا ہے جب کہ باقی سیوریج کا پانی ٹریٹمنٹ پلانٹ سے بغیر گزارے سمندر میں گرایا جاتا ہے جس سے شہر کا ساحل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
سمندر آلودہ ہونے کے باعث آبی حیات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ بندرگاہ پر آنے والے جہازوں کے مرمتی اخراجات میں بھی اضافہ اور ماہی گیروں کا روزگار تباہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس سے بچاؤ کے لیے 2007 میں تجویز کیے گئے منصوبے 'ایس تھری پروجیکٹ' کا تخمینہ اس وقت 8 ارب روپے لگایا گیا تھا جو اب بڑھ کر 30 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ جب کہ منصوبہ ابھی شروع بھی نہیں ہوا۔
اس مقصد کے لیے بھی وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان 50،50 فی صد فنڈنگ دینے پر اتفاق ہوا تھا۔ لیکن منصوبے پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ
کراچی میں ایک اور مسئلہ کچرے یعنی سالڈ ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کا ہے۔
شہر میں ایک اندازے کے مطابق 20 ہزار ٹن کچرا یومیہ پیدا ہوتا ہے۔ مگر صرف 10 ہزار ٹن کچرا ہی اٹھایا جاتا ہے۔ جب کہ باقی کچرا شہر کے گلیوں، چوراہوں یا پھر ندی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے بلدیاتی اداروں کے علاوہ 'سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ اتھارٹی' کے تحت غیر ملکی کمپنی کو شہر میں کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ تو دیا گیا ہے لیکن مصرین کے مطابق اس کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔
نالوں کی صفائی، تجاوزات کا خاتمہ
کراچی میں 38 بڑے اور 514 چھوٹے نالے کچرا جمع ہو جانے کے باعث برسات کے موسم میں اکثر ابل پڑتے ہیں جس سے کئی اہم سڑکوں سےپانی کی نکاسی نہیں ہو پاتی۔ اور سڑکوں پر ٹریفک گھنٹوں جام رہتا ہے۔ جب کہ کئی نشیبی علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان نالوں پر تجاوزات نے ان کی کشادگی کم کر دی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال گجر نالہ ہے جو 140 فٹ چوڑا تھا کئی مقامات پر اس کی چوڑائی 20 فٹ سے بھی کم رہ گئی ہے۔
ایسی تجاوزات میں سرکاری اداروں کی عمارات، رہائشی عمارتیں، کچی بستیاں شامل ہیں۔
ٹرانسپورٹ کا نظام
کراچی میں سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کا نظام بھی بوسیدہ اور پرانا ہو چکا ہے۔
شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ تقریباََ ناپید ہے۔ پرائیویٹ گاڑیوں کی بھرمار کی وجہ سے ٹریفک کا اژدھام ہے۔ سرکلر ریلوے عدم توجہ اور تجاوزات کی زد میں آکر 21 سال سے بند ہے۔
سرکلر ریلوے کی بحالی اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے 400 ارب روپے کے لگ بھگ سرمائے کی ضرورت ہے۔
بس ریپڈ سسٹم کے تحت کراچی میں صرف ایک مقام پر 28 کلومیٹر طویل گرین لائن کی تعمیر وفاقی حکومت کروا رہی ہے۔ تاہم منصوبہ دو سال سے تاخیر کا شکار ہو چکا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ بلیو لائن، ریڈ لائن اور یلو لائن بس سروس پر ابھی تک کام شروع ہی نہیں کیا جا سکا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کو آرڈینیشن کمیٹی کے قیام پر وفاقی حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کو خوش آئند اقدام قرار دیا تھا۔ مگر انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ آئین کے تحت صوبے میں انتظامی اختیار صوبائی حکومت کا ہے جس سے وہ اور ان کی پارٹی کسی صورت دستبردار نہیں ہوگی۔
کیا کمیٹی کے قیام سے مسائل کا حل تلاش کرنا ممکن ہے؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے بقول صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان اگرچہ موجودہ اتفاقِ رائے مثبت پیش رفت تو ہے مگر کراچی کے سیاسی اور انتظامی معاملات کو بالکل بھی چھیڑا نہیں گیا۔ جو ان مسائل کو جنم دینے کا باعث بنے ہیں۔
ان کے بقول اس پر فی الحال کوئی بھی بات چیت نہیں کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس راستے میں سیاسی عزم کی کمی، مصلحتیں، شہری اور دیہی کی تقسیم جیسے عوامل رکاوٹ ہیں۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اگر مقامی حکومتوں کے اختیارات صوبائی یا وفاقی حکومت اپنے پاس رکھ لے تو اس سے بہرحال بدگمانی رہتی۔
سیاسی تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی معاشی سرگرمیوں کے مرکز اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر کے ان گھمبیر مسائل کے حل کے لیے کیا حکمتِ عملی اپنائی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے فنڈنگ کیسے کی جائے گی۔
واضح رہے کہ پاکستان کی معاشی اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز سمجھے جانے والے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو اکنامسٹ انٹیلی جنس کی 2019 کی رپورٹ میں دنیا کے ان دس شہروں میں شامل کیا گیا تھا جہاں زندگی بے حد مشکل ہو چکی ہے جس کی بنیادی وجہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام، خراب انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم اور دیگر سہولیات تک رسائی میں حائل رکاوٹیں اور ماحولیاتی آلودگی ہے۔
ورلڈ بینک کی 2018 میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق کراچی معیار زندگی بلند کرنے کے لیے یہاں 10 ارب ڈالرز سے زائد کے سرمائے کی ضرورت ہے جو اس وقت 1680 ارب پاکستانی روپے بنتے ہیں۔