متحدہ قومی موومنٹ نے وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سندھ کے امور میں اپنا کردار ادا کریں اور صوبے کی شہری آبادی کو درپیش مسائل سے انہیں نجات دلائیں۔
یہ تجویز اس وقت سامنے آئی ہے جب وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے درمیان محاصل کی تقسیم، این ایف سی ایوارڈ اور دیگر امور پر اختلافات پہلے ہی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے کنوینر اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ''آئین کے تحت وزیر اعظم کو صوبائی امور میں مداخلت کا مکمل حق حاصل ہے''۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ''آئین پاکستان کا آرٹیکل 149، نمائش کیلئے نہیں بلکہ استعمال کیلئے ہے۔ وزیراعظم آرٹیکل 149 کا استعمال کرکے سندھ کے شہری علاقوں کو ان کا حق دلوائیں''۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ''اٹھارہویں آئینی ترمیم کا نام لے کر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا رہا اور عوام کے وسائل چھین لئے گئے۔ لیکن شہری علاقوں اور لوگوں کو دیوار سے لگا دیا گیا''۔
ایم کیو ایم کے رہنماوں کے مطابق، وزیر اعظم پاکستان کو آئین کا آرٹیکل 149 ''صوبائی امور میں مداخلت کا اختیار دیتا ہے''۔ بقول ان کے، ''سندھ میں بدتر حکمرانی کے باعث حالات خرابی کا شکار ہیں''، اور یہ کہ مبینہ طور پر سندھ حکومت کی جانب سے ''متعصبانہ پالیسیاں'' اپنائی جا رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ''41ہزار ملازمتیں بھی اقربا پروری اور لسانی نفرت کی نذر ہو رہی ہیں''، اور یہ کہ اگر سندھ میں مبینہ بدانتظامی کا سلسلہ جاری رہا ''تو صرف پانی ہی کے مسئلے پر شہروں، قصبوں اور گلی کوچوں میں لڑائیاں ہوسکتی ہیں''۔
آئین کا آرٹیکل 149 کیا کہتا ہے؟
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی صوبائی حکومت کو قومی اہمیت کے معاملے پر کوئی بھی ہدایات جاری کرسکتی ہے جو امن و امان، ملکی معاشی صورتحال یا اس جیسی کوئی اور صورتحال کے بارے میں ہو سکتی ہے۔
کیا ایسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے کہ وفاق، صوبائی امور میں مداخلت کرے؟ممتاز ماہر قانون اور پاکستان بار کونسل کے سابق رہنما یاسین آزاد ایڈوکیٹ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کا یہ آرٹیکل صرف ہنگامی یا خصوصی حالات ہی میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ''آئین کی اس شق کے غلط استعمال کو عدالتیں بھی کالعدم قرار دے سکتی ہیں۔ ایسے میں حکومت کو اس مشورے پر عمل کرنے سے قبل خود اس کے مضمرات کے بارے میں سوچنا چائیے''۔ ان کا کہنا تھا کہ اس آرٹیکل کے استعمال سے صوبوں اور مرکز کے درمیان تناو پیدا ہوسکتا ہے۔
سیاسی اور قانونی ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے نظر آتے ہیں کہ آئین میں صوبوں اور مرکز کے درمیان اختلافات کو حل کرنے کےلئے مشترکہ مفادات کونسل کا آئینی پلیٹ فارم موجود ہے جسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن، متحدہ قومی موومنٹ مبینہ بدعنوانی، شہری علاقوں میں ترقی کی بری صورتحال اور سرکاری نوکریوں میں کوٹے کی شکایات کا ازالہ کرنے کے لئے بہتر طرز حکمرانی، بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور سرکاری نوکریوں میں کوٹے کے بجائے میرٹ کو فروغ دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔
ایم کیو ایم وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ہے جبکہ دوسری جانب سندھ میں بھی وہ تحریک انصاف کے ساتھ اپوزیشن کا حصہ ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ خود کو سندھ کی شہری آبادی کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے اور گذشتہ 30 سال سے عام انتخابات اور بلدیاتی اداروں میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتی چلی آئی ہے۔ لیکن 2018 کے عام انتخابات میں اسے اپنی تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، جب وہ قومی اسمبلی کی صرف چھ عام نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ایم کیو ایم اپنی زیادہ تر نشستیں اپنی ہی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے ہاتھوں ہار بیٹھی۔