پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کچرا اور گندگی ایک بار پھر موضوع بحث ہے اور اس معاملے پر سیاست دانوں کے درمیان لفظی جنگ اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔
حالیہ برسات نے جہاں شہر کا بُرا حال کیا، وہیں مختلف سیاسی جماعتوں کو اپنے مخالفین پر کھل کر تنقید کرنے کا موقع بھی مل گیا ہے۔
کس نے کس پر کیا الزامات عائد کیے؟
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے تعلق رکھنے والے میئر کراچی وسیم اختر نے 20 اگست کو کورنگی میں صفائی مہم کا آغاز کرتے ہوئے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ سندھ حکومت کو ٹیکس کی ادائیگی نہ کریں۔
اُن کے بقول، صوبائی حکومت شہر میں صفائی ستھرائی اور دیگر مسائل حل کرنے میں اپنا کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔
وسیم اختر کا کہنا تھا کہ کراچی کے شہری ٹیکسز کی مد میں 300 ارب روپے سے زائد صوبائی حکومت کو دیتے ہیں۔ لیکن بلدیہ کے پاس کچرا اٹھانے تک کی مشینری موجود نہیں ہے۔
سندھ حکومت کے ترجمان مرتضٰی وہاب نے میئر کراچی کے اس بیان کو شہریوں کو سوّل نافرمانی کی جانب رغبت دلانے سے تشبیہ دیتے ہوئے اس بیان کی شدید مذمت کی اور میئر کراچی کو اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دینے اور شہریوں کے مسائل حل کرنے پر زور دیا ہے۔
مرتضٰی وہاب کہتے ہیں عوام میئر کراچی کی نااہلی سے واقف ہو چکے ہیں اور وہ راہِ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اب انہیں بھاگنے نہیں دیا جائے گا۔
بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی۔ بدھ کو پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین اور سابق میئر کراچی مصطفٰی کمال بھی اس بحث میں کود پڑے اور موجودہ میئر کراچی وسیم اختر کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے میئر وسیم اختر پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں شہر کی بربادی کا ذمہ دار قرار دیا۔
سابق میئر کا کہنا تھا کہ اختیارات ہونے کے باوجود وسیم اختر شہر میں صفائی ستھرائی کا کام کرانے میں ناکام رہے ہیں۔
مصطفٰی کمال نے مطالبہ کیا کہ میئر کراچی وسیم اختر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جائے اور ان کے خلاف کرپشن کی فی الفور تحقیقات شروع کی جائیں۔
ایسے میں میئر کراچی وسیم اختر نے بھی فوری پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنا رد عمل دیا اور مصطفٰی کمال کو ’’مسترد شخص‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے جوابی الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مصطفٰی کمال جب کراچی کے ناظم تھے تو انہوں نے اپنے دور میں انفرا اسٹرکچر تعمیر کرنے کی بجائے پُل، سڑکیں بنانے کے نمائشی اقدامات کیے، جس کا خمیازہ اب شہریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
جوابی وار پر وسیم اختر نے اپنی ماضی کے ساتھی پر بھی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات عائد کیے۔
اُدھر کلین کراچی مہم چلانے والے وفاقی وزیر برائے بحری امور اور تحریک انصاف کے رہنما علی حیدر زیدی بھی بول پڑے اور کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی رکاوٹوں کے باوجود ہم کراچی کو صاف کرنے نکلے ہیں، تاکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو شہر کے بارے میں اچھا تاثر مل سکے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی نالوں کی صفائی مہم کے باعث شہر میں دوسری بارش کے بعد زیادہ مسائل پیدا نہیں ہوئے۔
صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے علی زیدی کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ کلین کراچی مہم صرف ٹوئٹر پر چل رہی ہے۔ اس مہم میں محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے سوا عملی طور پر کچھ نہیں کیا جا رہا۔
سعید غنی نے ایم کیو ایم پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے تحریک انصاف کی ’’بی ٹیم‘‘ قرار دیا۔
کراچی کے صفائی ستھرائی کے مسائل کیا ہیں؟
صوبائی دارالحکومت کراچی، ملک کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز اور پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب بڑا شہر ہے۔ جو اس وقت بلدیاتی لحاظ سے گونا گوں مسائل سے دو چار ہے۔
کراچی میں سرفہرست مسئلہ ’سالڈ ویسٹ مینجمنٹ‘ یا شہر میں پیدا ہونے والے کچرے کو اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانا ہے، جس پر سندھ حکومت نے کئی ارب روپے لگائے۔ لیکن، اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
شہر کے چھ اضلاع میں سے چار میں دو چینی کمپنیوں کو ’سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ‘ نے کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ دے رکھا ہے، جب کہ باقی دو اضلاع سے ضلعی میونسپل کارپوریشنز کچرا اٹھاتی ہیں۔
چینی کمپنیوں کو اوسطاً 30 ڈالرز فی ٹن کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ لیکن ادائیگیوں کے باوجود ان کمپنیوں کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی، جس کے باعث حال ہی میں چینی کمپنی 'ہینگزوجن جیانگ' سے کراچی اٹھانے کا معاہدہ ختم کیا گیا ہے۔
کنٹریکٹ کمپنیوں کو کئی بار معاوضے کی تاخیر سے ادائیگی کی وجہ سے بھی کچرا اٹھانے کا کام سست روّی کا شکار رہا ہے۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کو کچرا اٹھانے کے لیے دیے گئے ٹھیکے، صوبائی حکومت کو 12 گنا مہنگے پڑ رہے ہیں، جب کہ رقم بھی غیر ملکی کرنسی یعنی امریکی ڈالر میں ادا کی جا رہی ہے۔ لیکن، اس سب کے باوجود بھی یہ مطلوبہ نتائج دینے کو تیار نہیں۔
کراچی چیمبر آف کامرس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پہلے لوکل کنٹریکٹر 320 روپے فی ٹن کچرا شہر سے لینڈ فل سائیڈ تک پہنچاتے تھے۔ لیکن، اب اس کی قیمت اگر 30 ڈالر فی ٹن ہے، تو پاکستانی روپوں میں یہ قیمت ساڑھے چار ہزار روپے فی ٹن بنتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، کراچی میں 12 ہزار ٹن سے زائد کچرا روزانہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن، اس میں سے بمشکل 50 سے 60 فیصد ہی اٹھایا اور باقاعدہ ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔
باقی کچرا شہر کے گلی کوچوں، چوراہوں یا پھر ندی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے، جس سے وہ نالے برسات کے موسم میں اُبل پڑتے ہیں اور نتیجتاً بارش کا پانی قریبی آبادیوں، سڑکوں اور گلیوں میں جمع رہتا ہے اور پھر بارشوں میں شہر بھر کا نظام درہم برہم نظر آتا ہے۔
کنٹریکٹ کمپنیوں پر یہ بھی تنقید کی جاتی رہی ہے کہ وہ معاہدے کے تحت گھر گھر سے کچرا اٹھانے، سڑکوں کی دھلائی اور کچرا ٹھکانے لگانے کے سائنسی بنیادوں پر کام کرنے میں مکمل ناکام رہی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قانونی طور پر بلدیہ عظمیٰ کراچی اور شہر کی ضلعی میونسپل کارپوریشنز سڑکوں، گلیوں کے ساتھ نالوں کی صفائی ستھرائی کی پابند تو ہیں۔ لیکن بلدیہ عظمٰی کی کچرا اٹھانے والی سینکڑوں گاڑیاں کھڑی کھڑی ناکارہ ہو چکی ہیں یا پھر انہیں چلانے کے لیے ایندھن کے پیسے موجود نہیں۔ اس مد میں ملنے والے فنڈز میں مبینہ کرپشن کی شکایات بھی زبان زد عام ہیں۔
معاملہ صرف یہی نہیں، بلکہ کراچی کی انتظامی تقسیم بھی پیچیدہ ہے۔ شہر میں 6 اضلاع کے علاوہ، دیہی کونسلز، پانچ کنٹونمنٹ بورڈز، ریلوے، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور دیگر اداروں کی اپنی زمینیں اور وہاں آبادیاں ہیں۔
ان تمام اداروں میں شہریوں کے بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے آپس میں کوئی رابطے یا مشترکہ حکمت عملی کا بھی فقدان ہے۔
غیر جانب دارانہ رائے کیا ہے؟
سابق بیورو کریٹ اور کراچی کے شہری اداروں میں مختلف اہم ترین عہدوں پر تعینات رہنے اور شہری امور کے ماہر، فہیم الزماں ان مسائل کے پیچھے وسائل کی کمی کے علاوہ بہتر طرزِ حکمرانی کی عدم موجودگی کو قرار دیتے ہیں۔
اُن کے مطابق، کراچی کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی کم ہی نظر آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے الزام تراشی کی سیاست کر کے عوام میں اپنی موجودگی کو باور کرایا جاتا ہے۔
فہیم الزمان کے مطابق، کراچی کے مسائل بالخصوص صفائی ستھرائی کے مسائل، نمائشی اقدامات سے حل ہونے والے نہیں ہیں۔ اس کے لیے میئر کراچی، صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کو مل بیٹھ کر سنجیدگی سے مسائل حل کرنے کی حکمت عملی اپنانا ہو گی۔
اُن کے مطابق، کراچی وفاقی حکومت کے کل محاصل کا 58 سے 60 فیصد فراہم کرتا ہے۔ جب کہ صوبائی محاصل کا 83 فیصد صرف کراچی سے جاتا ہے۔
فہیم الزمان کا مزید کہنا ہے کہ شہر کے بلدیاتی ادارے خود بھی اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے تیار نہیں اور اپنے دائرہ کار میں آنے والے ٹیکسز کی وصولی میں بھی مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں بھی بھاری پیمانے پر مبینہ کرپشن کی شکایات عام رہی ہیں۔
ادھر شہر میں صفائی ستھرائی کی ناقص صورت حال کے باعث شہریوں بالخصوص بچوں میں ٹائیفائیڈ، پیٹ میں درد اور اس سے ملتی جلتی بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف دو ہفتوں کے دوران سرکاری اسپتالوں میں لائے گئے ایسے مریضوں کی تعداد 14 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔