امریکہ میں کانگریس کی بھارتی نژاد رکن پرمیلا جے پال سمیت سات با اثر اراکین کانگریس نے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے نام ایک خط میں اپیل کی ہے کہ وہ بھارت میں سراپا احتجاج کسانوں کے معاملے کو بھارتی ہم منصب کے سامنے اٹھائیں۔ خط کے مطابق ان مظاہروں سے متعدد بھارتی نژاد امریکی براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
کانگریس کے اراکین کی طرف سے رواں ماہ 23 دسمبر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ کسانوں کا یہ احتجاج پنجاب سے تعلق رکھنے والے سکھ امریکیوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ یہ معاملہ متعدد بھارتی نژاد امریکیوں کو متاثر کرتا ہے۔
بھارت نے کسانوں کے احتجاج سے متعلق کانگریس اراکین کے لکھے گئے خط کو ‘عدم واقفیت پر مبنی اور غیر ضروری’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ مکمل طور پر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو نے رواں ماہ کے اوائل میں ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے بھارت میں کسانوں سے متعلق ناکافی معلومات کی بنیاد پر بیانات دیکھے ہیں۔ ایسے بیانات نامناسب ہیں کیوں کہ وہ ایک جمہوری ملک کے اندرونی معاملات سے متعلق ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ خط میں کہا گیا ہے کہ بھارتی نژاد کئی امریکی اس سے براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ ان کے پاس پنجاب میں آبائی زمینیں ہیں جب کہ ان کے خاندان وہاں آباد ہیں۔ خط کے مطابق وہ بھارت میں ان کی بہتری کے لیے فکر مند ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس سنگین صورتِ حال کے پیشِ نظر امریکہ کو مضبوط کرنے کے لیے آپ سے بھارتی ہم منصب سے رابطہ کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ آپ ان کو غیر ممالک میں سیاسی تقاریر کی آزادی کے سلسلے میں امریکی مؤقف سے باخبر کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی قانون سازوں نے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ امریکہ بحیثیت ملک سیاسی مظاہروں سے متعارف ہے اور وہ موجودہ سماجی اضطراب کے دور میں بھارت کو مشورہ دے سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق خط پر دستخط کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بحیثیت قانون ساز وہ قومی پالیسی وضع کرنے کے بھارت کے حق کا احترام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھارت اور غیر ممالک میں ان لوگوں کے حقوق کو بھی تسلیم کرتے ہیں جو موجودہ زرعی قوانین کو اپنے اقتصادی تحفظ پر حملہ تصور کرتے ہوئے اس کے خلاف پر امن احتجاج کر رہے ہیں۔
مذکورہ خط پر پرمیلا جے پال کے علاوہ مزید چھ قانون سازوں کے دستخط ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں امریکی سکھ گروپ کے شریک چیئرمین جان گرامینڈی نے دیگر متعدد قانون سازوں کے دستخط سے ایک خط امریکہ میں بھارتی سفیر ترنجیت سنگھ سندھو کو ارسال کیا تھا اور احتجاجی کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے پرامن احتجاج کے حق کا دفاع کیا تھا۔
ڈیموکریٹک قانون ساز ڈیوڈ ٹرونے نے بھارتی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ احتجاج کرنے والے کسانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ انہوں نے بھارت کی سپریم کورٹ کی جانب سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔
یاد رہے کہ ہزاروں کسان متنازع زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہریانہ اور اترپردیش سے متصل دارالحکومت دہلی کی سرحد کو بند کر رکھا ہے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان قوانین کو واپس لے اور حکومت کی جانب سے اجناس کی طے شدہ قیمت (ایم ایس پی) کو قانونی درجہ دے تاکہ کوئی شخص اس سے کم قیمت پر خریداری نہ کر سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کسانوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ قوانین ان کے مفادات کے خلاف اور کارپوریٹ اداروں کے حق میں ہیں اور ان سے زرعی شعبے پر صنعت کاروں کا قبضہ ہو جائے گا۔
دوسری طرف حکومت کا اصرار ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد میں ہیں اور اب وہ سرکاری منڈیوں میں ہی اپنی فصل فروخت کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے۔ بلکہ وہ نجی خریداروں کے ہاتھ بھی اچھے داموں میں اپنی فصل فروخت کر سکیں گے۔
حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایم ایس پی ختم نہیں ہوگی وہ برقرار رہے گی۔
دریں اثنا کسانوں اور حکومت کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے اور حکومت اور کسانوں کے درمیان اب تک مذاکرات کے چھ ادوار ہو چکے ہیں۔ جو کہ بے نتیجہ رہے۔
جمعہ کو کسانوں نے میٹنگ کرنے کے بعد اشارہ دیا ہے کہ وہ حکومت سے پھر بات چیت کر سکتے ہیں۔ حالانکہ اس سے قبل انھوں نے بات چیت کی حکومت کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ اس میں کوئی نئی اور ٹھوس تجویز نہیں ہے۔
کسانوں کا احتجاج 31ویں دن میں داخل ہو چکا ہے۔ سنگھو، ٹکری اور غازی پور سرحد پر ہزاروں کسان اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب کہ دوسری ریاستوں سے کسانوں کے احتجاج گاہ پر پہنچنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔