سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے جمعرات کو پاکستان کا مختصر دورہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے وفد کے ہمراہ اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق، سعودی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے امور اور علاقائی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
اس موقع پر پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسلام آباد اور ریاض کے دیرینہ اور برادرانہ تعلقات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملک مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون و تعلقات مزید مستحکم کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔
سعودی وزیرِ خارجہ نے ایسے وقت پاکستان کا دورہ کیا ہے، جب حال ہی میں وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان نے سعودی عرب کے دورے کے بعد ملائیشیا میں ہونے والی اسلامی ممالک کی کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ بعض اسلامی ممالک کے تحفظات تھے جنہیں دور کرنے کے لیے مزید وقت اور کوششوں کی ضرورت ہے۔
البتہ، ترکی کے صدر طیب ایردوان کے حوالے سے ترک میڈیا میں یہ بیان سامنے آیا تھا کہ پاکستان نے سعودی عرب کے دباؤ کے تحت اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔
تاہم، سعودی عرب نے ترک صدر ایردوان کے دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں دباؤ اور دھمکی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ البتہ، اسلام آباد اور ریاض کے تعلقات گہری نوعیت کے ہیں اور باہمی اعتماد، افہام و تفہیم اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں کوالالمپور کانفرنس کے پس منظر میں ترکی اور سعودی عرب کے بیانات کی وجہ سے پاکستان کے لیے مشکل صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔
اس تناظر میں سعودی وزیرِ خارجہ کے دورۂ اسلام آباد کو بعض تجزیہ کار پاکستان کے لیے ریاض کی حمایت کا اظہار قرار دے رہے ہیں۔
بین الاقوامی امور کی ماہر تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ کا دورے کی وجہ صرف کوالالمپور کانفرنس نہیں ہے۔ ان کے خیال میں یہ سعودی عرب کی طرف سے اس بات کی تائید ہے کہ پاکستان ریاض کیمپ میں دوبارہ واپس آ گیا ہے۔
تجزیہ کار ہما بقائی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کا کہہ چکے تھے۔
ان کے بقول، سعودی عرب کے تحفظات کی وجہ سے پہلے خود شرکت سے منع کرنا اور پھر وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا بھی کانفرنس میں شریک نہ ہونا سعودی عرب اور شاید امریکہ کے تحفظات کی وجہ سے ہے۔
تجزیہ کار ہما بقائی کے مطابق، اس وقت پاکستان اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ ان کے بقول، اگر یہ صورتِ حال مزید کشیدہ ہوتی ہے تو پاکستان کو سعودی عرب اور امریکہ کی ضرورت پڑے گی۔ لہٰذا، ان سے دور ہونا یا انہیں ناراض کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
ادھر بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اور صحافی زاہد حسین کا کہنا ہے کہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ پاکستان کے ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز ہو گا۔
ان کے بقول، سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ کا دورہ اس صورتِ حال کا تسلسل ہے اور ریاض پاکستان کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ کا دورہ بہت اہم ہے۔ لیکن، اس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔
زاہد حسین نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اچھی نیت سے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کرنے کا عزم کیا تھا۔ ان کے بقول، اس صورتِ حال میں پاکستان کے لیے غیر جانب دار رہنا ہی بہتر ہے۔ کیوں کہ بڑے اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے سعودی عرب سے قربت کے باوجود اسلامی ممالک کے اختلافات کے پیش نظر ایک محتاط رویّہ اختیار کیا ہے۔