چار جنوری کی سرد شام کوہسار مارکیٹ اسلام آباد میں ہونے والی سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی موت نے ان کے قاتل ممتاز حسین قادری کو نئی زندگی بخش دی ہے۔ جبکہ شیخوپورہ میں قید توہین رسالت کی ملزمہ آسیہ بی بی کے گرد مایوسی کے سائے اور زیادہ گہرے ہوگئے ہیں۔ سلمان تاثیر آسیہ کی رہائی کا پروانہ لینے گئے تھے لیکن موت کے شکنجے نے خود انہیں ہی دبوچ لیا۔ آسیہ جیل خانے کے درو دیوار سے کان لگائے سلمان تاثیر کی آہٹ کی منتظر ہی رہیں مگر اب وہ کبھی آسیہ کے پاس نہیں آسکیں گے۔
منگل کی سہ پہر تک کوئی جانتا بھی نہ تھا کہ ممتاز حسین قادری کون ہے، لیکن وقت کا پہیہ اس تیزی سے گھوما کہ ملک ممتاز حسین قادری راتوں رات ہیرو بن گیا۔۔۔ جی ہاں ہیرو! ان لوگوں کا ہیرو جن کی رائے میں اس کی جانب سے اٹھایا گیا اقدام درست ہے۔
سچ پوچھئے تو جب سے یہ واقعہ ہوا ہے پورا معاشرہ دو حلقوں میں بٹ گیا ہے۔ ایک وہ جو اس سانحے کو افسوس کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور دوسرا وہ حلقہ جو توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کے سخت مخالف ہیں۔ پہلی سوچ کے حامی افراد نے قتل کے خلاف مظاہرے کئے اور قتل میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ وہیں دوسری سوچ کے حامل افراد نے ممتاز حسین قادری کے حق میں وہ سب کچھ کرنا شروع کردیا ہے جو کسی انقلابی کے لئے کیا جاتا ہے۔
بدھ کے روز جب ممتاز قادری کو ضلع کچہری لایاگیا تو وکلاء کی ایک بڑی تعداد نے ملزم کا والہانہ استقبال کیا۔ اس پرپھول نچھاور کیے اور ہار پہنائے گئے۔اس موقع پر100 سے زائد وکلاء موجود تھے۔
ادھر ایک سیاسی و دینی جماعت کے سربراہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قانونی تقاضوں کے مطابق ممتاز قادری کو فوری طور پر کھلی عدالت میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے ممتاز حسین کے اہل خانہ کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ان کی جماعت کی طرف سے ممتاز قادری کے اہل خانہ کی اخلاقی طور پر مکمل کفالت کے انتظامات کئے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب کا قتل غیرت ایمانی کا حساس معاملہ ہے ۔
بدھ کو ملزم کی جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیشی کے موقع پر وکلا اور لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پولیس کی بکتر بندی گاڑی میں ملک ممتاز کو لایا گیا تو جذباتی ہجوم تمام رکاوٹیں توڑ کر اس تک پہنچ گیا۔ اس کا نقاب اتار ڈالا، نعرے بازی کی اور گلاب کی پتیاں نچھاور کیں۔
اس سے پہلے اسلام آباد بار کے 200 سے زائد وکلا نے تحفظ ناموس رسالت لائرز فورم کی جانب سے ممتاز قادری کی مفت وکالت کے لئے وکالت نامہ پر دستخط کئے جنہیں میڈیا کے سامنے بھی پیش کیا گیا۔
ایک غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق سوشل ویب سائٹ 'فیس بک' بھی ممتاز قادری کے ذکر سے خالی نہیں ۔ اس پر سیکڑوں افراد نے گورنر کے قتل پر ممتاز قادری کی تعریف کی۔ ویب سائٹ کے دو ہزار استعمال کنندگان نے ممتا ز قادری کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے گروپ جوائن کیا جبکہ اس کے درجنوں پرستار دیگر صفحات میں شامل ہوئے تاہم یہ مواد گزشتہ شب انتظامیہ کی جانب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اکاوٴنٹ ہولڈرز نے 'فیس بک' پر اپنے تبصرے پیش کئے جن میں انہوں نے ممتاز قادری کو اسلام کا سپاہی قرار دیا۔
مبصرین کے مطابق آہستہ آہستہ حالات جس نہج پر جارہے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ جو جماعتیں پہلے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف جلسے جلوس اور احتجاجی ریلیاں کررہی تھیں وہ مستقبل میں ممتاز قادری کی رہائی یا کم از کم اس کے حق میں ریلیاں اور احتجاج بھی کرسکتی ہیں ۔
ادھر وکلاء جن کے حوصلے عدلیہ کی بحالی کے بعدخاصے بڑھے ہوئے ہیں وہ بھی ملزم کے حق میں بیان دے چکے ہیں۔ یوں ملزم سے ہمدری کایہ معاملہ اور اس کی حساسیت مزید بڑھ سکتی ہے، گھٹے گی ہرگز نہیں۔