رسائی کے لنکس

گورنر پنجاب کا قتل سوچ کے کئی زاویئے چھوڑ گیا، مذہبی فرقے محتاط ہوگئے


گورنر پنجاب کا قتل سوچ کے کئی زاویئے چھوڑ گیا، مذہبی فرقے محتاط ہوگئے
گورنر پنجاب کا قتل سوچ کے کئی زاویئے چھوڑ گیا، مذہبی فرقے محتاط ہوگئے

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل اپنے پیچھے سوچ کے کئی زاویئے چھوڑ گیا ہے۔ اگرچہ آج وہ منوں مٹی تلے دب گئے لیکن ان کے قتل کی گونج پاکستانی سیاست میں دیر تک سنائی دیتی رہے گی۔ اس قتل کے ساتھ ہی برسراقتدار پارٹی کے حصے میں ایک اور قربانی لکھی گئی جو پارٹی کے لئے ہمدردی کے حصول کا سبب بن سکتی ہے۔ ایک جانب قتل سے جڑے کئی سوالات سر ابھار رہے ہیں تو دوسری جانب مذہبی فرقوں نے احتیاط پسندی اختیار کرلی ہے۔ اکثریت کا کہنا ہے کہ ملزم کا عمل کسی سازش یا برین واشنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ملزم کا انفرادی فعل معلوم ہوتا ہے۔

سلمان تاثیر کے قتل کی ایف آئی آر بھی آج تھانہ کوہسار اسلام آباد میں درج کر لی گئی جس میں قتل کی دفعہ302 اور انسداد دہشت گردی کی دفعہ 780 اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں ملک ممتاز حسین قادری کو مرکزی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

ملک ممتاز حسین قادری کے بارے میں ایک تفتیشی افسرکا کہنا ہے کہ وہ بریلوی فرقے سے تعلق رکھتا ہے اور الیاس قادری کا پیروکار ہے۔ الیاس قادری 'دعوت اسلامی' کے نام سے قائم کردہ ایک مذہبی و دینی تنظیم کے بانی ہیں۔ دعوت اسلامی کا مرکزی دفتر کراچی میں ہے لیکن اس کے ذیلی دفاتر پورے پاکستان میں واقع ہیں۔ یہی تنظیم ایک مذہبی ٹی وی چینل بھی چلاتی ہے۔ اس تنظیم کے ارکان مستقل سبز رنگ کی پگڑی باندھتے ہیں جوہزاروں کی بھیڑ میں بھی نمایاں رہتی ہے۔ بظاہر تنظیم کا کوئی سیاسی یا عسکری ونگ نہیں ہے نہ ہی یہ تنظیم کسی طرح سیاست میں خود کو ملوث رکھتی ہے، پیغمبر اسلام کی سنتوں پر عمل کرنا اور اسے دوسروں میں پھیلانا تنظیم کا بنیادی مقصد ہے۔ اس تنظیم کے پیروکار اپنے نام کے ساتھ 'قادری' لکھتے ہیں۔ ملزم ممتاز حسین بھی اپنے نام کے آگے 'قادری' لکھتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دعوت اسلامی سے متاثر اور گہرا لگاوٴ لگتا ہے۔

کراچی کے رہائشی اور مذہب سے نہایت دلچسپی رکھنے والے بعض مبصرین جو سلمان تاثیر کے قتل کی حساسیت سے بخوبی واقف ہیں انہوں نے وی او اے سے بات چیت کے دوران حد درجہ محتاط رویہ اختیار کیا اور اپنے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر قتل سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے امکان ظاہر کیا کہ ملزم ممتاز حسین قادری کا عمل انفرادی ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ یہ ملزم کے مذہب سے جذباتی لگاوٴ کا نتیجہ ہوسکتا ہے ۔

ایک صاحب کا کہنا تھا کہ ملزم کا عمل دینی غیرت کا متقاضی تھا۔ دور کتنا ہی کیوں نہ بدل جائے لوگ کبھی اپنے ماں باپ کو برا نہیں سن سکتے۔ سو رسول اللہ کی تو بات چھوڑ ہی دیجئے۔ ایک مسلمان کیلئے ان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوسکتا ۔ لوگ دعائیں مانگتے ہیں کہ ان کے ماں باپ رسول اللہ پر قربان جائیں، پھر خود کی کیا حیثیت ہے۔

اس امکانی پہلو پر کہ کیا ملزم کی برین واشنگ کی گئی ہوگی، ایک بزرگ کا کہنا تھا "میرے نزدیک یہ کوئی سازش نہیں تھی۔ ایک شخص اپنے عقائد سے محبت پر قابو نہ پاسکا اور انتہائی اقدام کر بیٹھا۔ ملزم بالغ اور سمجھ بوجھ والا ہے، اسے معلوم تھا کہ اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے مگر پھر بھی وہ ڈرا سہما نہیں۔ اس نے قتل کرکے نہ تو فرار ہونے کی کوشش کی اور نہ ہی کسی قسم کی پریشانی کے آثار اس کے چہرے پر دکھائی دیئے ۔ اس سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ ملزم تین دنوں تک خود کو ذہنی طور پر آنے والے حالات پر آمادہ کرتا رہا ہے۔ وہ مصمم ارادہ کرچکا تھا۔ اگر اس کے پیچھے کوئی سازش ہوتی تو موقع سے فرار کی صورت سامنے آجاتی ۔ موقع واردات کی روداد سن کر یہی لگتا ہے کہ اس کے پیچھے سوائے ایک جذبے کے اور کوئی نہیں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ملزم کا کہنا ہے کہ اس کے ارادہ قتل سے اس کے کئی ساتھی واقف تھے۔ اگر واقعی یہ بات سچ ہے تو ان لوگوں کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے جو ملزم کا ارادہ جان کر بھی خاموش رہے اور انہوں نے اس سے حکام بالا کو کیوں نہ آگاہ کیا۔ پھر جس وقت ملزم نے گورنر پر فائر کھولا دیگر گارڈز کیا کررہے تھے اور انہوں نے جوابی فائرنگ کیوں نہیں کی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تمام گارڈز سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی جان بوجھ کر خاموش رہے۔ یا انہیں اس بات کا اندیشہ تھا اگر انہوں نے ملزم پر فائر کھولا اور کہیں ملزم ہلاک ہوجاتا تو ان کو بھی شک کے دائرے میں لے لیا جاتا یا ان کا تعلق بھی قتل سے جوڑ دیا جاتا۔

دوسری جانب ایک طبقے کی رائے یہ بھی ہے کہ سلمان تاثیر کا قاتل ممتاز قادری کسی تنہاشخص کا نام نہیں بلکہ یہ ایک سوچ کا نام ہے۔وہ سوچ جو سب کے سامنے مختلف صورتوں میں آچکی ہے۔ کچھ لوگ اسے پہچان گئے ہیں اور کچھ اب بھی انجان بنے ہوئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG