افغانستان میں ایسے علاقے ہیں جو انتہاپسند سرگرمیوں کے لیے مواقع فراہم کرتے ہیں: امریکی وزیر خارجہ

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا انٹرویو سی بی ایس کی سابق صحافی کیتھرین ہیریچ لے رہی ہیں۔ یہ انٹرویو 20 فروری کو ایکس پر نشر ہوا۔ بشکریہ X

  • امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں حکومت کا کنٹرول نہیں ہے اور وہاں دہشت گرد گروپوں کے پنپنے کے مواقع موجود ہیں۔
  • روبیو نے بتایا کہ القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ کے کچھ معاملات میں طالبان امریکہ سے تعاون کرتے ہیں جب کہ دیگر معاملات میں نہیں۔
  • اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے ملک میں ایک ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے جو دہشت گرد گروپوں کو اپنے ٹھکانے اور تربیتی کیمپ بنانے میں معاونت فراہم کرتا ہے۔
  • اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ خراسان وسطی ایشیائی ریاستوں سے اپنے لیے بھرتیاں کر رہی ہے۔
  • افغانستان کی صورت حال پر سی این بی کی سابق صحافی کیتھرین ہیریج نے ایکس کے لیے مارکو رویبو کا انٹرویو کیا ہے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعرات کی رات اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ طالبان کے کنٹرول کے افغانستان میں ایسے علاقے موجود ہیں جو انتہاپسند گروپوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار سی بی ایس نیٹ ورک کی ایک سابق صحافی کیتھرین ہیریج کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک انٹرویو کے دوران کیا۔

روبیو سے پوچھا گیا تھا کہ آیا انٹیلی جینس رپورٹس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ( داعش) نے افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا لیے ہیں اور وہ 11 ستمبر 2001 سے پہلے جیسے خطرے کا سبب بن سکتے ہیں۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہوں گا یہ نائن الیون سے پہلے جیسا منظر ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ کی حکمرانی میں ایسے علاقے ہوں جہاں ہر حصے پر آپ کا مکمل کنٹرول نہ ہو تو یہ ایسے گروہوں کے لیے موقع فراہم کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن آج اور 10 سال پہلے کے درمیان فرق یہ ہے کہ اب اس زمین پر امریکی موجود نہیں ہیں جو انہیں ہدف بنائیں اور ان کا پیچھا کریں۔

امریکیی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا انٹرویو سی بی ایس کی سابق صحافی کیتھرین ہیریچ لے رہی ہیں۔ یہ انٹرویو 20 فروری کو ایکس پر نشر ہوا۔ بشکریہ ایکس

روبیو نے کہا کہ جب طالبان کو بتایا گیا کہ اسلامک اسٹیٹ یا القاعدہ ان کے ملک کے کچھ حصوں میں کام کر رہی ہے تو بعض معاملات میں طالبان تعاون کرتے رہے ہیں اور ان کے پیچھے گئے ہیں، لیکن دوسرے معاملات میں انہوں نے اتنا زیادہ تعاون نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ لہذا میں یہ کہوں کا کہ میں اس کا موازنہ نائن الیون سے پہلے کے دور سے نہیں کروں گا، لیکن یقینی طور پر صورت حال کہیں زیادہ غیر یقینی ہے اور یہ بات صرف افغانستان تک محدود نہیں ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کے تبصروں پر طالبان نے فوری طور پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا، لیکن وہ مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ پورا ملک ان کے کنٹرول میں ہے اور وہ ان خدشات کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ کوئی بھی غیر ملکی دہشت گرد تنظیم افغان سرزمین پر موجود ہے۔

مارکو روبیو کا یہ بیان اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے چند دن بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ القاعدہ کے کارکنوں کو طالبان کی خفیہ ایجنسی کے تحفظ میں افغانستان بھر میں محفوظ ٹھکانے مل رہے ہیں۔

SEE ALSO: افغانستان: داعش کے حملے میں ایک چینی شہری ہلاک

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان نے اجازت پر مبنی ایک ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے جس سے القاعدہ کو مضبوط ہونے کا موقع ملا ہے اور اس کےمحفوظ ٹھکانے اور تربیتی کیمپ پورےا فغانستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں افغانستان میں موجود ایک دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ خراسان کو، جو اسلامک اسٹیٹ سے منسلک ایک گروپ ہے، علاقائی دہشت گردی کا ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کا جائزہ یہ اجاگر کرتا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ خراسان کے حامیوں نے یہ کہ نہ صرف طالبان حکام اور افغانستان کی مذہبی اقلیتوں پر حملے کیے ہیں بلکہ ان کے حملوں دائرہ یورپ تک پھیلا ہوا ہے اور یہ گروپ افغانستان کی سرحد سے ملحق وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی اپنی بھرتیوں کے لیے سرگرم ہے۔

طالبان عسکری طور پر اگست 2021 میں اس وقت افغانستان کے اقتدار پر قابض ہوئے تھے جب امریکی قیادت میں نیٹو افواج، ملک میں دو عشروں کی اپنی موجودگی کے بعد واپس لوٹ گئیں تھیں جس کے بعد کابل میں قائم افغان حکومت اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اور ڈھیر ہو گئی تھی۔

(وی او اے نیوز)