پاکستان سمیت کئی ممالک میں سورج گرہن، 'رنگ آف فائر' کا نظارہ

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج سورج گرہن ہو رہا ہے۔ ملک کے اکثر علاقوں میں گرہن کا واضح مشاہدہ کیا گیا۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق اسلام آباد میں سورج گرہن 81.99 فی صد، لاہور میں 91.19 فی صد، کراچی میں 91.53 فی صد، پشاور میں 79.44 فی صد، کوئٹہ میں 87.93 فی صد، گلگت میں 74.88 فی صد جب کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 79.96 فی صد گرہن کا مشاہدہ کیا گیا۔

پاکستان کے علاقوں گوادر اور سکھر میں سورج گرہن کا 98 فی صد تک نظارہ کیا گیا۔

گوادر میں سورج گرہن کا آغاز 9:20 پر ہوا جب کہ 10:48 پر اس کو عروج ملا۔ اسی طرح سکھر میں 9:33 پر سورج گرہن کا آغاز یوا جب کہ 11:07 پر اس کا عروج تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں سورج گرہن کا ایسا نظارہ 75 سال بعد 2095 میں دیکھا جا سکے گا۔

پاکستان کے ساتھ بھارت کے کئی علاقوں میں بھی رنگ آف فائر کا نظارہ کیا گیا۔

چاند، سورج کو کم ہی مواقع پر پوری طرح ڈھک لیتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا کہ چاند سورج اور زمین کے درمیان میں آگیا جس سے بننے والا ہالا انگوٹھی کی شکل اختیار کر گیا۔ اسی مناسبت سے اسے 'رنگ آف فائر' کا نام دیا گیا ہے۔

پاکستان کے کئی علاقوں میں سورج گرہن کے دوران جزوی اندھیرا ہوگیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سکھر اور گوادر وہ علاقے تھے جہاں 'رنگ آف فائر' واضح طور پر دیکھا گیا۔

ماہرین کی جانب سے سورج کو گرہن لگنے کے دوران شہریوں کو سورج کی سمت نہ دیکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

کراچی یونیورسٹی سمیت ملک کے مختلف جامعات اور فلکیاتی مراکز میں سورج گرہن کو دیکھنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ طلبہ کی بڑی تعداد نے مختلف عینکوں اور آلات کی مدد سے یہ نظارہ دیکھا۔

گزشتہ برس دسمبر میں بھی سورج گرہن ہوا تھا جس کا نظارہ مشرقی یورپ، شمال اور مغربی آسٹریلیا، افریقہ، بحر ہند اور ایشیا کے مختلف حصوں میں کیا گیا تھا۔

پاکستان میں دسمبر 2019 میں ہونے والے سورج گرہن تقریباً 20 برس بعد گرہن کا نظارہ تھا۔ اس سے قبل 1999 میں جزوی سورج گرہن دیکھا گیا تھا۔

محکمہ موسمیات نے پاکستان میں سورج گرہن کے حیرت انگیز نظارے کا وقت لگ بھگ تین گھنٹے بتایا تھا۔ جس کے دوران مختلف مساجد میں نماز کسوف بھی ادا کی گئی۔

دنیا بھر میں 'رنگ آف فائر' کے نظارے

سورج گرہن کی اقسام

ماہرین کے مطابق سورج گرہن کی کئی اقسام ہوتی ہیں جس میں سے ایک مکمل سورج گرہن ہوتا ہے جس میں زمین، سورج اور چاند ایک لائن میں آ جاتے ہیں۔

بعض اوقات یہ جزوی ہوتا ہے جس میں حلقہ نما گہن ہوتا ہے جس میں چاند سورج کے درمیان تو موجود تھا۔ لیکن اس نے سورج کو مکمل طور پر نہیں ڈھانپا ہوتا۔

ماہرین کے مطابق چاند کا سائز چوںکہ چھوٹا ہوتا ہے اور وہ زمین سے بہت فاصلے پر ہوتا ہے۔

آج زمین اور چاند کے فاصلے کی وجہ سے چاند حجم میں کم دکھائی دیا۔ ایسے میں چاند جب سورج کے سامنے آیا تو سورج کناروں سے ایک دائرے کی مانند دکھائی دینے لگا جو اینویلر (حلقہ نما گہن) کہلاتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں سورج گرہن

مکمل سورج گرہن کب دیکھا گیا؟

گیارہ اگست 1999 کو مکمل سورج گرہن ہوا تھا جس کے دوران کراچی میں سہ پہر کے وقت مکمل اندھیرا چھا گیا تھا۔ اس سے قبل 1995 میں بہاول پور کے قریب احمد پور شرقیہ میں مکمل سورج گرہن دیکھا گیا تھا۔

سورج گرہن سے منسوب توہمات

فلکیات کے ماہرین سورج گرہن کو مکمل طور پر سائنسی عمل قرار دیتے ہوئے اس سے منسوب کہانیوں اور توہمات پر یقین نہیں رکھتے۔ لیکن اس سارے مرحلے کے دوران عام آنکھ سے سورج کو دیکھنے سے ضرور منع کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس سے بینائی متاثر ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔

آج کا سورج گرہن دیکھنے کے لیے بھی ماہرین اور طلبہ نے خصوصی آلات، ٹیلی اسکوپ اور عینکوں کا استعمال کیا۔

بعض گھرانوں میں سورج گرہن کو نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس دوران حاملہ خواتین کو باہر جانے یا تیز دھار آلات سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔

کچھ لوگ اسے حاکموں اور حکومتوں کے لیے بد شگونی بھی تصور کرتے ہیں جب کہ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ زندگی پر برے اثرات ڈالنے کا ذریعہ ہے۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ سورج گرہن کے دوران بچوں کو گھر سے باہر نہیں جانا چاہیے اس سے ان کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔

لیکن فلکیاتی ماہرین ان سب توہمات کو غلط قرار دیتے ہیں۔

اسلام ان توہمات کے حوالے سے کیا کہتا ہے؟

اس حوالے سے جامعہ کراچی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے ڈاکٹر محمد عارف خان ساقی نے کہا ہے کہ توہمات پر یقین کرتے ہوئے ان پر عمل کرنا درست نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی اشارہ ہمیں اسلام میں کہیں ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ان توہمات پر یقین کیا جائے تو ا ایمان سے محروم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ واقعات ہماری زندگی پر براہ راست اثر انداز نہیں ہوتے۔ یہ سب اللہ کی رضا اور منشاء سے ہے۔

ڈاکٹر عارف کے بقول توہمات کا شریعت میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔ ان پر دھیان دینا مشکرانہ عمل ہے۔ کیوں کہ قادرِ مطلق بہرحال اللہ کی ذات ہے۔