دنیا کے کئی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی جزوی سورج گرہن دیکھا گیا۔ یہ مناظر کراچی اور گوادر میں واضح دکھائی دیے جب کہ ملک کے دیگر شہروں سکھر، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور گلگت میں بھی سورج گرہن دکھائی دیا۔
سری لنکا اور متحدہ عرب امارات میں مکمل سورج گرہن دکھائی دیا۔ اس دوران متحدہ عرب امارات کے کئی شہروں میں دن میں تاریکی پھیل گئی۔
کراچی میں سورج کو گہن لگنے کا عمل صبح سات بج کر 34 منٹ پر شروع ہوا۔ آٹھ بج کر 45 منٹ پر یہ اپنے عروج پر تھا جو دس بج کر 20 منٹ پر ختم ہوا۔
کراچی میں سورج گرہن کے مناظر دیکھنے کے لیے جامعہ کراچی کے آبزرویٹری ڈپارٹمنٹ میں خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ طلبہ اور ماہرینِ فلکیات نے ٹیلی اسکوپ اور خصوصی عینکوں کی مدد سے یہ نظارہ دیکھا۔
آج کا سورج گرہن جزوی تھا
اس موقع پر کراچی یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف اسپیس اینڈ ایسٹرو فزکس (اسپا) کے ڈائریکٹر، پروفیسر ڈاکٹر محمد جاوید اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آج کا سورج گرہن جزوی تھا۔
انہوں نے کہا کہ سورج کی 80 فی صد روشنی کو چاند نے روکے رکھا جس کی وجہ سے سورج ہلال کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سارا مرحلہ ڈھائی گھنٹوں کے دورانیے پر محیط تھا۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق 14 دن بعد چاند گرہن ہو گا جب کہ 21 جون 2020 کو دوبارہ سورج گرہن دیکھنے کو ملے گا جو کراچی میں جزوی طور پر دکھائی دے گا لیکن سکھر میں واضح ہو گا اور فائر آف رنگز کی صورت میں دکھائی دے گا۔
سورج گرہن کی اقسام
ماہرین کے مطابق سورج گرہن کی کئی اقسام ہوتی ہیں جس میں سے ایک مکمل سورج گرہن ہوتا ہے جس میں زمین، سورج اور چاند ایک لائن میں آ جاتے ہیں۔
بعض اوقات یہ جزوی ہوتا ہے جیسا کہ آج کراچی میں ہونے والا سورج گرہن جزوی تھا۔ وہ انولر (حلقہ نما گہن) تھا جس میں چاند سورج کے درمیان تو موجود تھا۔ لیکن اس نے سورج کو مکمل طور پر نہیں ڈھانپا۔
ماہرین کے مطابق چاند کا سائز چوںکہ چھوٹا ہوتا ہے اور وہ زمین سے بہت فاصلے پر ہوتا ہے۔ آج زمین اور چاند کے فاصلے کی وجہ سے چاند حجم میں کم دکھائی دیا۔ ایسے میں چاند جب سورج کے سامنے آیا تو سورج کناروں سے ایک دائرے کی مانند دکھائی دینے لگا جو انولر (حلقہ نما گہن) کہلاتا ہے۔
مکمل سورج گرہن کب دیکھا گیا؟
گیارہ اگست 1999 کو مکمل سورج گرہن ہوا تھا جس کے دوران کراچی میں سہ پہر کے وقت مکمل اندھیرا چھا گیا تھا۔ اس سے قبل 1995 میں بہاول پور کے قریب احمد پور شرقیہ میں مکمل سورج گرہن دیکھا گیا تھا۔
سورج گرہن سے منسوب توہمات
فلکیات کے ماہرین سورج گرہن کو مکمل طور پر سائنسی عمل قرار دیتے ہوئے اس سے منسوب کہانیوں اور توہمات پر یقین نہیں رکھتے۔ لیکن اس سارے مرحلے کے دوران عام آنکھ سے سورج کو دیکھنے سے ضرور منع کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس سے بینائی متاثر ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔
آج کا سورج گرہن دیکھنے کے لیے بھی ماہرین اور طلبہ نے خصوصی آلات، ٹیلی اسکوپ اور عینکوں کا استعمال کیا۔
جامعہ کراچی کی ایک طالبہ حفصہ نے بتایا کہ انہیں بھی گھر سے اس حوالے سے خاص ہدایات کی گئی تھیں کہ وہ کھلی آنکھوں سے سورج نہ دیکھیں۔
لیکن بعض گھرانوں میں سورج گرہن کو نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس دوران حاملہ خواتین کو باہر جانے یا تیز دھار آلات سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
کچھ لوگ اسے حاکموں اور حکومتوں کے لیے بد شگونی بھی تصور کرتے ہیں جب کہ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ زندگی پر برے اثرات ڈالنے کا ذریعہ ہے۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ سورج گرہن کے دوران بچوں کو گھر سے باہر نہیں جانا چاہیے اس سے ان کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔
لیکن فلکیاتی ماہرین ان سب توہمات کو غلط قرار دیتے ہیں۔
اسلام ان توہمات کے حوالے سے کیا کہتا ہے؟
اس حوالے سے جامعہ کراچی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد عارف خان ساقی نے کہا کہ توہمات پر یقین کرتے ہوئے ان پر عمل کرنا درست نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی اشارہ ہمیں اسلام میں کہیں ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان توہمات پر یقین کیا جائے تو ا ایمان سے محروم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ واقعات ہماری زندگی پر براہ راست اثر انداز نہیں ہوتے۔ یہ سب اللہ کی رضا اور منشاء سے ہے۔
ڈاکٹر عارف کے بقول توہمات کا شریعت میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔ ان پر دھیان دینا مشکرانہ عمل ہے۔ کیوں کہ قادرِ مطلق بہرحال اللہ کی ذات ہے۔