امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق لگ بھگ تین دہائیوں کے بعد پہلی بار اتوار کی شب آسمان پر معمول سے بڑا اور سرخ چودہویں کا چاند نمودار ہوگا
سائنس دانوں کے مطابق 1982 کے بعد سے اب تک ایسے مکمل چاند کا نظارہ نہیں کیا گیا کہ جب عام چودہویں کے چاند سے نسبتاً بڑے چاند کو گرہن لگے گا اور 33 سالوں بعد دنیا کو ایک بار پھر سے یہ یادگار نظارہ دیکھنے کا موقع ملے گا۔
ماہرین فلکیات کے مطابق یہ نایاب منظر اگلی بار 2033میں ہونے کی توقع ہے۔
فلکیات سے وابستہ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ غیرمعمولی نظارہ تین چیزوں کا سنگم ہے، اس دن چاند مکمل شکل میں ہوگا، یہ زمین سے قریب ترین فاصلے پر ہوگا اور ساتھ ہی یہ مکمل چاند گرہن بھی ہوگا۔
دنیا بھر میں آسمانوں کا نظارہ کرنےکے شوقین افراد اتوار اور پیر کی درمیانی شب عالمی وقت کے مطابق رات دو بجکر گیارہ منٹ پر مکمل چاند گرہن کا نظارہ کر سکیں گے۔
چاند گرہن 1گھنٹے اور 11 منٹ تک جاری رہے گا، جبکہ چاند گرہن کا نظارہ امریکہ کے مشرقی حصے میں زیادہ بہتر ہوگا۔ اس کے علاوہ شمالی اور جنوبی امریکہ، یورپ، افریقہ، مغربی ایشیا اور مشرقی بحرالکاہل کے حصوں میں دیکھا جاسکے گا۔
امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کے ایک بیان کے مطابق انسانی تاریخ میں چاند گرہن کو ڈر اور کبھی کبھار خوف کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ چاند کو گرہن اس وقت لگتا ہے جب مکمل چاند زمین کے سایے کے تاریک ترین حصے ' امبرا ' سے گزرتا ہے۔
تاہم آج بھی سپر مون کے ساتھ چاند گرہن کے واقعہ کو مسیحیوں کے ایک گروپ 'مورمونز' کی طرف سے خوف کی علامت سمجھا جارہا ہے۔ جبکہ دو عیسائی پادریوں جان ہاگی اور بلٹز نے 2014کے ٹیٹراڈ سلسلے کے چار مسلسل مکمل خونی چاند کو قرب قیامت کی نشانی بتایا ہے۔
ماہرین فلکیات کے مطابق 27 اور 28ستمبر کی درمیانی شب آسمان کی تاریکیوں میں جگمگانے والا چودہویں کا چاند رواں سال کا دوسرا سپر مون ہوگا۔
سپر مون کب واقع ہوتا ہے؟ اس بارے میں ناسا کے ماہرین کہتے ہیں کہ چاند سے زمین کا اوسط فاصلہ 339000 میل ہے۔ لیکن چونکہ چاند کا مدار کامل دائرہ نہیں بلکہ بیضوی شکل کا ہے، اس لیے چاند اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے کبھی کبھار زمین سے قریب ترین نقطے پر پہنچ جاتا ہے اور جب چاند زمین سے قریب ترین مدار Perigee یا حیضیض قمر پر ہوتا ہے تو یہ مدار کے انتہا apogeeکے مقابلے میں 14فیصد بڑا اور 33 فیصد زیادہ روشن ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جب چاند گرہن واقع ہوتا ہے تو ہماری زمین ،چاند اور سورج کے ساتھ براہ راست ایک قطار میں آجاتی ہے، یعنی چاند اور سورج کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے۔ اور چاند اس کے سایے کے عین وسط میں چھپ جاتا ہے۔
چونکہ چاند کے پاس اپنی روشنی نہیں ہے اور وہ سورج سے حاصل ہونے والی روشنی کو منعکس کرتا ہے، لہذا قمری گرہن کے دوران چاند پر سورج کی روشنی زمین کے عکس کی طرف سے بلاک ہوجاتی ہے۔ تاہم زمین کی فضا میں پھیلی سورج کی سرخ روشنی زمین کے کناروں یا 'رنگ آف ایٹ ماسفئیر' کے ذریعے چاند تک پہنچتی ہے اور اسے مکمل سیاہ ہونے کے بجائے سرخ رنگ دیتی ہے اور اسی وجہ سے اسے 'خونی چاند' یا 'بلڈ مون' کہا جاتا ہے۔
برطانوی وقت کے مطابق پیر کی شب ایک بجے سے شروع ہو کر 3 بج کر 10منٹ تک مکمل چاند گرہن ہوگا اور بعد میں چاند زمین کے سائے سے باہر منتقل ہونا شروع ہوجائے گا اور پیر کی صبح 6بج کر 24 منٹ پر مکمل طور پر تاریکی سے باہر نکل آئے گا۔
ماہرین موسمیات نے اتوار کی شب برطانیہ میں زیادہ تر مقامات پر مطلع صاف رہنے کی پیشن گوئی کی ہے اورکہا ہے کہ برطانیہ میں چاند گرہن دیکھنے کے لیے موسمی حالات سازگار ہیں۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ 2019سے پہلے برطانیہ میں دیکھا جانے والا یہ آخری مکمل چاند گرہن ہوگا۔
اتوار کا چاند گرہن 2014سے جاری ٹیٹراڈ سلسلے کے چار مکمل چاند گرہن میں سے آخری چاند گرہن ہوگا۔
اس سے قبل تین مسلسل مکمل چاند گرہن کے درمیان چھ، چھ ماہ کا وقفہ تھا، جنھیں برطانیہ میں نہیں دیکھا جا سکا تھا۔
فلکیات کے ماہرین کی پیشن گوئی کے مطابق اکیسویں صدی میں مجموعی طور پر کل آٹھ مکمل چاند گرہن ہیں۔ جن میں اتوار کو ہونے والا گرہن بھی شامل ہے۔ جبکہ سولہویں صدی اور انیسویں صدی میں ایک بھی ایسا گرہن نہیں دیکھا گیا۔
ناسا کے مطابق یہ عام چاند گرہن نہیں ہے کیونکہ ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔ بیسویں صدی میں اب تک 5 سپر مون گرہن کے واقعات ہوئے ہیں ان میں سے ایک 1910 میں جب کہ دیگر بالترتیب 1928 ،1946 ،1964 اور 1982 میں دیکھے گئے تھے۔
چاند گرہن کا یہ نظارہ امریکی خلائی ادارے ناسا کی روبوٹک ٹیلی اسکوپ سروس کے ذریعے براہ راست نشر کیا جائے گا۔