نئی ریسرچ: ریٹائرڈ زندگی  اپنے ہی ملک میں بسر کریں تو اچھا ہے  

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق چئیرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم ملک جو اپنی اہلیہ عظمیٰ ملک اور بچوں کے ساتھ امریکی ریاست ورجینیا میں اپنی ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔

  • ریٹائرڈ زندگی کسی دوسرے ملک میں بسرکرنے والے احساس تنہائی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں ۔ نئی ریسرچ
  • جریدے سائیکولوجی اینڈ ایجنگ میں شائع اس ریسرچ کے لیے نیدرلینڈز کے بیرون ملک مقیم 4995 ریٹائرڈ لوگوں اور ملک میں رہنے والے 1338 ریٹائرڈ لوگوں سے ایک سروے کیا گیا۔
  • امیریکن سائئکلو جیکل ایسو سی ایشن کی اس ریسرچ کے مطابق ، نئے ملک میں اپنی کمیونٹی کی کمی کی وجہ سے تنہائی ایک انتہائی تکلیف دہ معاملہ ہو جاتی ہے ۔
  • ریٹائر منٹ کے بعد ترک وطن کا سوچنے والے لوگوں کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ اس بارے میں غور کریں کہ وہ اپنے آبائی ملک میں اپنے سماجی رابطے کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ریسرچ کی مرکزی مصنفہ ۔
  • ریٹائر منٹ کے بعد دوسرے ملکوں میں زندگی بسر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن ہم اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کےلیے ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔: پروفیسر ڈاکٹر محمدسلیم ملک، سابق چئیرمین شعبہ اردو یونیورسٹی آف پنجاب لاہور۔

ایک نئی ریسرچ سے ظاہر ہوا ہے کہ جو لوگ ریٹائر منٹ کے بعد کسی نسبتاً گرم تر اور سست یا اپنے پسندیدہ ملک میں شفٹ ہونے کا خواب دیکھتے ہیں انہیں ان لوگوں کی نسبت تنہائی کا زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے جو اپنے ملک ہی میں ریٹائرڈ زندگی گزارتے ہیں ۔

امیریکن سائئکلو جیکل ایسو سی ایشن کی شائع شدہ اس ریسرچ کے مطابق ، نئے ملک میں اپنی کمیونٹی کی کمی سے تنہائی ایک انتہائی تکلیف دہ معاملہ بن جاتی ہے ۔

نیدر لینڈز انٹر ڈسپلینری ڈیمو گریفکس انسٹی ٹیوٹ کی اسما بتول اور اس ریسرچ کی مرکزی مصنفہ نے بتایا کہ ،’ یورپ اور دنیا بھر میں ریٹائر مینٹ کے بعد انٹر نیشنل ریٹائرمنٹ مائیگریشن دن بدن مقبول تر ہورہی ہے ۔

سوشل میڈیا پر آپ دیکھتے ہیں یورپ کے ملازمتوں سے ریٹائر ہونے والے لوگ اسپین میں سن باتھ سے لطف اندوز ہورہے ہیں ، امریکہ کے ریٹائرڈ لو گ میکسیکو منتقل ہو رہے ہیں اور جاپان کے ریٹائرڈ لوگ ملائیشیا منتقل ہورہے ہیں ‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ریٹائرڈ تارکین وطن عام طور پر یہ ہی کہتے ہیں کہ وہ خوش ہیں ، لیکن پھر بھی وہ خود کو ایک نئے ملک کے مطابق ڈھالنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ۔انہیں اپنے خاندان اور پرانے دوستوں سے اور اپنے بالغ بچوں سے رابطے کے فقدان کے ساتھ ساتھ نئے ملکوں میں نئی دوستیاں بنانے میں مشکل درپیش ہوتی ہے ۔

جریدے سائکولوجی اینڈ ایجنگ میں شائع اس ریسرچ کی مرکزی مصنفہ اسما بتول اور ان کے رفقائے کار نے ریٹائرڈ تارکین وطن کے تجربات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے نیدرلینڈز کے بیرون ملک مقیم 4995 ریٹائرڈ لوگوں اور ملک میں رہنے والے 1338 ریٹائرڈ لوگوں سے ایک سروے کیا۔

سروے میں بیرون ملک مقیم ایسے ریٹائرڈ لوگ شامل کئے گئے جن کی عمریں 65 سال سے زیادہ تھیں اور جو 50 سال کی عمر کے بعد کسی نئے ملک میں منتقل ہوئے تھے۔

SEE ALSO: چین میں ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی منظوری

محققین نے سروے میں شامل افراد سے ان کی تنہائی کے احساسات اور اپنے آبائی ملکوں میں موجود اپنے خاندان، دوستوں اور پڑوسیوں کے بارے میں سوال پوچھے ۔ تنہائی کے حوالے سے انہوں نے دو پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی ، جذباتی تنہائی، جو اپنے قریبی دوستوں یا کسی پارٹنر کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ، اور سماجی تنہائی ، جو ایک وسیع تر سماجی حلقے یا کمیونٹی کی کمی کے احساس سے پیدا ہوتی ہے ۔

مجموعی طور پر ، محققین کو معلوم ہوا کہ سروےمیں شامل ریٹائرڈ تارکین وطن سماجی طور پر ان لوگوں کی نسبت زیادہ تنہائی محسوس کرتے تھے جو اپنے ہی ملک میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے ۔

اور ایسا اس حقیقت کے باوجود تھا کہ ریٹائرڈ تارکین وطن ، اوسطاً ، زیادہ بہتر سماجی اور اقتصادی حیثیت کے حامل تھے اور اپنے ملک میں ریٹائرڈ زندگی بسر کرنے والوں کی نسبت زیادہ صحت مندتھے ۔ اور بہتر سماجی اور معاشی زندگی اور بہتر صحت کے حامل افراد کے بارے میں اکثر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں تنہائی کا احساس کم ہوتا ہے ۔

SEE ALSO:   فلوریڈا میں بوڑھے امریکیوں کا ڈزنی

تاہم ، سروے سے ظاہر ہوا کہ ریٹائرڈ تارکین وطن اپنے آبائی ملکوں میں ریٹائرڈ زندگی گزارنے والوں کے مقابلے میں جذباتی طور پر اوسطاً زیادہ احساس تنہائی کا شکار نہیں تھے ۔ ریسرچرز کے مطابق اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بہت سے ریٹائرڈ افراد اپنے شریک حیات یا پارٹنر کے ساتھ کسی نئے ملک میں منتقل ہوتے ہیں۔

صرف وہ ریٹائرڈ تارکین وطن جنہوں نے یہ کہا کہ ان کا اپنے آبائی ملکوں میں اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ رابطہ ختم ہو گیا تھا ، سماجی اور جذباتی دونوں اعتبار سے تنہائی کا زیادہ شکار تھے۔

ریسرچرز کو یہ بھی معلوم ہوا کہ سروے میں شامل جو ریٹائرڈ افراد نئے ملک میں پنے پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ رابطے رکھتے تھے اور نئے ملک سے تعلق رکھنے کا احساس زیادہ رکھتے تھے انہوں نے بتایا کہ وہ سماجی طور پر تنہائی کا زیادہ شکار نہیں ہیں۔

اس ریسرچ کے حوالے سے وائس آف امریکہ نے پاکستان کی یونیورسٹی آف پنجاب لاہور کے، شعبہ اردو کے سابق چئیرمین اورمتعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد سلیم ملک سے گفتگو کی جو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی اہلیہ اور اپنے بچوں کے ساتھ امریکی ریاست ورجینیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر،محمد سلیم ملک سابق چئیرمین شعبہ اردو یونیورسٹی آف پنجاب

انہوں نے کہا کہ ریٹائر منٹ کے بعد دوسرے ملکوں میں زندگی بسر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن ہم اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کےلیے انہیں زندگی کی تمام آسائشوں سےہمکنار کرنے کے لئے زندگی بھر مارے مارے پھرتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے خود پہلےاپنا آبائی شہر بہاولپور اور پھر لاہور چھوڑا اور اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ میں سکونت اختیار کی۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ہو یا کوئی بھی ملک ریٹائر منٹ کے بعد یا پچاس ساٹھ سال کی عمر میں کسی نئے ملک میں آباد ہونے سے بہت سے وہ مسائل جنم لیتے ہیں جو اپنے وطن میں ریٹائرڈ لائف گزارنے کے دوران اتنی شدت سے پیش نہیں آتے۔

’’جب آپ اپنا وطن چھوڑتے ہیں ، اپنی وہ گلیاں وہ گھر اور رشتے چھوڑتے ہیں جن کے ساتھ آپ کا ماضی وابستہ ہوتا ہے اور آپ کسی نئے ملک میں ، نئی زبان اور نئے کلچر میں نئے سرے سے آباد ہوتے ہیں تو آپ اپنے ماضی سے کٹ جاتے ہیں ۔ آپ اس پودے کی طرح ہوتے ہیں جسے کسی اور جگہ ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہو ‘‘۔

اگر پاکستانیوں کے حوالے سے بات کروں تو سب سے پہلی بات تو یہ کہ بہت سے معمر پاکستانیوں کو نئے ملک میں زبان اور کلچر کے مختلف ہونے کی وجہ سے معاشرے میں اپنے الگ تھلگ ہونے کا اور تنہائی کا شدید احساس گھیر لیتا ہے ۔ وہ کسی سے بات نہیں کر سکتےاور نہ ہی کوئی ان سے بات کر سکتا ہے اور انسان کےلئے سب سے بڑی سزا یہ ہی ہے کہ وہ کسی سے بات نہ کر سکے اور اس سے کوئی بات نہ کرے ۔ تو وہ ریشم کے کیڑے کی طرح اندر ہی اندر گھلتےجاتے ہیں ۔

امریکہ میں آباد ریٹائرڈ افراد کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا وہ اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے مصروفیت تلاش کرتےہیں جو ان میں سے بیشتر کو ان نہیں ملتی۔ کیوں کہ اپنی عمر اور انگریزی زبان سے ناواقفیت یا کم علمی کی وجہ سے نہ تو وہ کوئی مناسب ملازمت کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس ملک کے مختلف کلچر کی وجہ سے وہ معمر افراد کے کسی تفریحی کلب کا رکن بننا چاہتے ہیں۔ جب کہ ان کےبچوں اور پوتا پوتیوں کے پاس بھی ان کے ساتھ گزارنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ سو وہ عبادات اور وظائف میں خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں اس عمر میں اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہئے مگر مجھے بھی دوسرے پاکستانی تارکین وطن کی طرح اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ایسا کرناپڑا ۔ تاہم میرا تعلق کیو نکہ تعلیم و تدریس کے شعبےسے رہا ہے اور میں لکھنے لکھانے کا کام کرتا رہتا ہوں تو مجھے اس ملک میں تنہائی کا احساس اتنا زیادہ شاید نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے اپنی محبت کرنے والی اہلیہ د دوبیٹوں اور ایک بیٹی اور پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کا ساتھ میسر ہے۔ اور ان کےبعد میری تنہائی کی ساتھی پاکستان میں اپنی ذاتی لائبریری کی وہ کتابیں ہیں جنہیں میں بحری جہاز پر لدوا کر یہاں لے آیا تھا۔

تاہم میں سمجھتا ہو ں کہ اگر تمام حالات ساز گار رہیں تو بھی اگر ایک ریٹائرڈ جوڑے میں سے کوئی ایک بھی نئےملک میں انتقال کر جائے تو دوسرا شدید تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اور اس کے بعد وہ بڑھاپے کے دوسرے مسائل یعنی صحت کے مسائل کا شکار ہوجاتا ہے اور باقی عمر اسپتالوں کے چکر کاٹنے میں گزار دیتا ہے۔

اس لئے ریٹائرمنٹ کے بعد کسی دوسرےملک میں باقی زندگی گزارنے کا خیال ذہن میں لاتے ہوئے ان تمام عوامل پر غور ضرور لانا چاہیے ۔ اور صرف اس صورت میں اس خیال پر عمل کرنا چاہیے جب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ رہے ۔

جریدے سائیکولوجی اینڈ ایجنگ میں شائع اس تازہ ریسرچ کی مرکزی مصنفہ اسما بتول اپنی ریسرچ کے حوالے سے کہتی ہیں کہ جو ریٹائرڈ لوگ بیرون ملک منتقل ہونے کا سوچ رہے ہیں انہیں سماجی سپورٹ سسٹم کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ، زیادہ معمر افراد کو کسی نئے ملک میں ریٹائرڈ زندگی گزارنے کی صورت میں دوہری مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے کیوں کہ وہ تنہائی سے متعلق عوامل، یعنی عمر سے منسلک اور ترک وطن سے منسلک دونوں قسم کے خطرات کی زد میں ہوتے ہیں۔ جب کہ تنہائی بذات خود صحت کے لیے ایک خطرہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ، ریٹائر منٹ کے بعد ترک وطن کا سوچنے والے لوگوں کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ اس بارے میں غور کریں کہ وہ اپنے آبائی ملک میں اپنے سماجی رابطے کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔