’’ جب میں نے پہلی بار کراچی سے امریکی سر زمین میں قدم رکھا تو پہلی بار تازہ ہوا اور خالص آکسیجن کو براہ راست اپنے اندر جاتے محسوس کیا جس نے بائیس گھنٹے کے طویل سفر کی میری تھکان کو لمحوں میں دور کر کے پورے وجود کو ترو تازہ کر دیا ۔ اور مجھے پہلی بار یہ اندازہ ہوا کہ آج سے پہلے میں کس قدر آلودہ ہوا میں سانس لے رہی تھی ‘‘۔
یہ کہانی سنا رہی تھیں امریکی ریاست ورجینیا میں آباد ایک پاکستانی امریکی خاتون خانہ اور ایک نجی کاروبار کی مالک، مسرت جہاں ، جو آج سے 33 سال قبل ایک خوبصورت زندگی کے بہت سے خوابوں کے ساتھ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ اپنی نند کی اسپانسر شپ پر امریکہ پہنچی تھیں۔
اور اس خوبصورت زندگی کا پہلا منظر ورجینیا کے صاف ستھرے، خوبصورت کشادہ ائیر پورٹ پر قطاروں میں کھڑے مسافر اور ڈسپلن سے ہر کام کی انجام دہی کی صورت میں ہمارے سامنے تھا۔
وی او اے کو ایک انٹرویو میں مسرت جہاں نے، بتایا کہ خالص آکسیجن کے ساتھ ساتھ ایک اور احساس جس نے تروتازگی میں اضافہ کیا وہ تھا ان تمام مسائل سے آزادی کا احساس جو اس زمانے میں پاکستا ن کے سیاسی ، اورمعاشرتی حالات کی وجہ سےہمیں دن رات پریشان کیے ہوئے تھے ۔ آئے دن کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہڑتالیں، ٹریفک جام ،اغوابرائے تاوان کے واقعات اور ایک عجیب سا خوف و ہراس تھا جو روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔
امریکہ میں قدم رکھتے ہی ایک دم سے لگا کہ ہم اپنے تمام پرانے مسائل سےآزاد ہو گئے ہیں اور اب ایک آزاد سرزمین میں ایک آزاد اور خوبصورت زندگی ہماری منتظر ہے۔
سڑک پر صرف گاڑیاں تھیں پیدل چلنے والا کوئی نظر نہیں آیا!
ایئر پورٹ سے نکلے تو ہمارے میزبان باہر منتظر تھے اور ہم نے پہلی بار گاڑی میں بیلٹ باندھنے کا تجربہ کیا ۔
سفر شروع ہوا تو کشادہ اور صاف ستھری سڑکوں کے جال اور ان پر ترتیب سے چلتی ہوئی بے شمار گاڑیاں اور راستوں کی راہنمائی کے لیے لگے سبز بورڈ ز نے اور خاص طور پر اس بات نے حیران کر دیا کہ اتنی بہت سی ٹریفک میں کوئی ایک بھی ہارن نہیں سنائی دیا۔ اور اس سےبھی عجیب یہ بات لگی کہ چھوٹی چھوٹی سڑکوں سے ایک دم سے گھوم کر ہم کیسے کشادہ سڑکوں کے ایک جال میں داخل ہو رہے تھے ۔
راستے میں ترتیب سے لگے ایک ہی سائز کے سرسبز درختوں کی قطاریں اور کبھی ان کے سامنے اور کبھی ان کے پیچھے چھپ جانے والے خوبصورت مکانات کا منظر بہت دلکش لگا لیکن ساتھ ہی ایک عجیب بات یہ لگی کہ سڑک پر صرف گاڑیاں تھیں لیکن پاکستان کی طرح پیدل چلنے والا کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔
ہمارے تصور میں تہ خانہ ایک تنگ و تاریک اور خوفناک جگہ تھی!
حیرتوں کے اس جال سے نکل کر اپنے میزبان کے گھر پہنچے، تو ایک اور حیرت نے آگھیرا ۔ جی ہاں مجھے لگا کہ ہم لکڑی کے کسی گھر کے اندر ہیں ۔ ہماری رہائش کا بندو بست ایک خوبصورت کشادہ واک آؤٹ بیس مینٹ میں کیا گیا تھا ۔ لیکن سچ بتائیں تو لکڑی کی دیواروں اور چھت کو دیکھ کر پہلی بار پریشانی ہوئی کہ کہیں یہ پتلی پتلی سی لکڑی کی دیواریں ہمارے اوپر گر تو نہیں جائیں گی . جب کہ بعد میں پتہ چلا تھا کہ وہ لکڑی کی نہیں بلکہ ڈرائی والز تھیں جو لکڑی کی بجائے ایک خاص میٹیریل سے تیار کی جاتی ہیں۔
لیکن ہم اس وقت انہیں لکڑی کی دیواریں ہی سمجھ رہے تھے ۔ ہمیں بتایا گیاکہ آپ کی رہائش کا بندو بست بیس مینٹ میں کیا گیا ہےبیس مینٹ کے لفظ سے ہمارے سامنے کسی تہہ خانے کے گودام کا تصور سامنے آیا لیکن یہ احساس اس وقت معدوم ہو گیا جب ہم ایک خوبصورت کشادہ واک آؤٹ بیس مینٹ میں داخل ہوئے جو در حقیقت گھر کی نچلی منزل تھی لیکن جس کے لیے یہاں بیس مینٹ کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔
لیکن جب اوپر کی منزل پر چلنے والوں کے قدموں کی دھم دھم سنائی دی تو ہمیں محسوس ہوا کہ ہم کسی بہت ہی کمزور ساختہ خطرناک کمرے میں پھنس گئے ہیں جو کسی بھی وقت ہمارے اوپر گر سکتا ہے۔ ۔۔۔۔ آزادی کا وہ احساس جو ائیر پورٹ سے نکلتے ہوئے پیداہوا تھا عجیب سی قید کے احساس میں بدل گیا اور اس احساس نے ہمیں بہت دیر تک نیند سے دور رکھا ۔
لیکن کیوں کہ ہم پاکستان سے چلتے ہوئے یہ سوچ کر آئے تھے کہ ہم امریکہ پہنچ کر پہلے دن کے سورج کو اپنی آنکھوں سے طلوع ہوتے دیکھیں گے ، اس لیے آخر کار خود کو کسی نہ کسی طرح نیند کی وادی میں دھکیل ہی دیا ۔
خوابوں کی اس سرزمین پر رات بھر خوبصورت خواب دیکھے اور صبح سویرے اٹھ کر بیس مینٹ کے شیشے کے بڑے سے دروازےسے پردے ہٹا کر جب باہر جھانکا تو طلوع آفتاب کے خوبصورت منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لگا کہ وہ گویا ہمارے لیے خوشیاں لے کر آیا ہے ۔
تو یہ احساس کتنے دن تک رہا ؟ ہمارے اس سوال پر مسرت جہاں نے مسکراتے ہوئے کہا، آج تک ہے۔ ہر آنے والے دن نے ہمیں ایک نئی حیرت اور ایک نئی خوشی سے ہمکنار کیا ۔
ہر کام ایک ٹیلی فون کال پر
سب سےبڑی خوشی تو اس بات کی ہوتی تھی کہ ہمارا ہر کام کا صرف ٹیلی فون پر ہوجاتا تھا۔ کسی بھی کام کے لیے نہ کسی سفارش یا ریفرینس کی ضرورت تھی ،نہ لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں گھنٹوں انتظار کی مشکل، اور نہ ہی کسی جائز کام کے لیے ناجائز طور پراپنی جیب ہلکی کرنے کی ضرورت .
مثلاً،بچوں کے داخلے کے لیے اسکول میں فون پر بات ہوئی اور تین دن کے اندر ہم بچوں کو لے کر اسکول پہنچ چکے تھے ۔ اسکول جانے کے لیے گھر کے قریب ہی ایک بس اسٹاپ پر اسکول بس آئی اور یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اسے ایک خاتون چلا رہی تھیں ۔ ہمارے بچے کو بہت پیار سے بس میں سوار کرا دیا گیا ۔
بس میں جس ڈسپلن سے بچے بیٹھے تھے اس نے تو حیران کیا سو کیا لیکن اس سے بھی زیادہ حیرانی اس بات سے ہوئی کہ جب وہ بس رکی تو اس کے دونوں طرف سب گاڑیاں رک گئیں اور جب تک سب بچے لائن سے لگ کر بس میں بیٹھ نہیں گئے اور بس چل نہیں پڑی وہ گاڑیاں رکی رہیں۔ اور ہمیں احساس ہوا کہ یہاں ہمارے بچوں کی حفاظت کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے ۔
کیاامریکہ میں آپ کو وہ آزادی اور خوشی ملی جس کا احساس پہلے دن ہوا تھا؟
بالکل ایسا ہی ہوا ۔ ان کا جواب تھا ۔ ہم اپنے ساتھ جو جمع پونجی لائے تھے اس کی مدد سے میرے شوہر نےجو پاکستان میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے اور ایک عرصہ ابو ظہبی کی ایک برطانوی کمپنی میں ملازمت کر چکے تھےاکاؤنٹس میں اپنی مہارت کی وجہ سےبنائے ہوئے اپنے اچھے کریڈٹ کے نتیجے میں صرف ایک ماہ میں ایک گھر خرید لیا ۔
میرے شوہر نے کراچی کے بے ہنگم ٹریفک کے پیش نظر مجھے گاڑی چلانے کے خطرے سے ہمیشہ دور رکھا تھا ۔انہوں نے یہاں بھی میرے گاڑی چلانے کی سخت مخالفت کی لیکن یہاں کی محفوظ ٹریفک کو دیکھتے ہوئے میں نے گاڑی چلانے کی ضد کی اور جلد ہی گاڑی چلانی سیکھ لی۔
امریکی زندگی کی جدو جہد
لیکن امریکہ میں سب کچھ پلیٹ میں رکھ کرنہیں پیش کیا جاتا اس کے لیے محنت درکار ہوتی ہے۔میرے شوہر نے، جن کا انتقال بارہ سال قبل ہو چکا ہے ، ایک گراسری اسٹور کا بزنس شروع کیا تھا۔اور میں نے کیوںکہ ساری عمر کوئی ملازمت نہیں کی تھی اور ایک خالصتاً خاتون خانہ اور بچوں کی ماں کے طورپر زندگی گزاری تھی، اپنے اسی ہنر کو استعمال کرتے ہوئے ایک ڈے کئیر سنٹر کھولا جو خوب چلا ۔
لیکن پھر میرے شوہر کواپنے بزنس میں بری طرح نقصان ہوا اور ہم بہت سے مالی مسائل کا شکار ہو گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمیں امریکی زندگی کی اس جدو جہد کا سامنا ہوا جس کا دنیا بھر سے امریکہ آنے والے سبھی تارکین وطن کو کسی نہ کسی موڑ پر ہوتا ہے ۔
خوابوں کی تکمیل
لیکن ان مسائل نے ہم سے ہمارے خواب نہیں چھینے اور ہم نے ان کی تکمیل کا سلسلہ جاری رکھا ۔ہمارے بچوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم جابز کیں ۔میرے شوہر نے میرے ساتھ ڈے کئیر سنٹر کو جوائن کیا ۔ اور ہم سب نے مل کر ان مشکل حالات کا خوشدلی سے مقابلہ کیا ۔ایک ایک کر کے اپنےسبھی خواب پورےکیے ۔
آج میرےبچے اپنی اپنی زندگیوں میں سیٹ ہیں۔ میرے شوہر میرے ساتھ نہیں ہیں لیکن میں اسی گھر میں رہ رہی ہوں جسے میرے شوہر نے یہاں آنے کے ایک ماہ بعد خریدا تھا۔ میں آج بھی خود کو جوان محسوس کرتی ہوں۔ اپنے سبھی کام خود کرتی ہوں اور اپنے ڈے کئیر کو بھی چلارہی ہوں ۔
میں نے یہاں آکر محسوس کیا کہ امریکہ میں کوئی بوڑھا نہیں ہوتا یا خود کو بوڑھا نہیں سمجھتا ۔ جب میں یہاں معمر افراد کو اپنے گھر کے کام کاج خود کرتے، گاڑیاں چلاتے، اپنی شاپنگ خود کرتے، ، ملازمت کرتے بھاری بھاری کام خود کرتے دیکھتی ہوں تو دل چاہتا ہے کہ پاکستان کے بزرگوں کو یہ ماڈل دکھاؤں جو ساٹھ سال ہی نہیں بلکہ 45 سال کی عمر میں ہی خود کو بوڑھا خیال کرتے ہوئے گھر کے کونے میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ سب بھی امریکی معمر افراد کی طرح اپنی زندگی کے آخری پل تک دوسروں پر انحصار کرنے کی بجائے عزم جواں کے ساتھ کام کرتے رہیں ۔
فورم