رسائی کے لنکس

میزائلوں میں استعمال ہونے والے مشتبہ اجزا لے کر دوسرا ایرانی جہاز چین سے روانہ


  • شپ ٹریکنگ ویب سائٹ میرین ٹریفک کے مطابق اپنے سفر کے دوران جہاز نے جنوبی چین کی زوہائی جیلن پورٹ میں دو دن اسٹاپ کیا اور ایک نامعلوم کارگو ایران ڈیلیور کیا۔
  • ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فروری سے مارچ کے اوائل تک لیوہینگ جزیرے پر لنگر انداز ہونے کے دوران جیران میں کوئی خاص تبدیلی رپورٹ نہیں ہوئی۔
  • جیران کی چین سے روانگی سے متعلق وی او اے کے رابطہ کرنے پر امریکی محکمۂ خارجہ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

واشنگٹن ڈی سی -- چین سے روانہ ہونے والا دوسرا بحری جہاز ایران کی جانب بڑھ رہا ہے جس کے بارے میں شبہ ہے کہ اس میں میزائل میں تیار ہونے والا سامان شامل ہے۔

وائس آف امریکہ کے ایک تجزیے میں یہ پتا چلا ہے کہ یہ دوسرا ایرانی جہاز ایک بڑے کارگو کے ساتھ ایران کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس جہاز کے بارے میں مغربی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ چین سے میزائل پروپیلنٹ انگریڈیئنٹ (میزائل میں استعمال ہونے والا سامان) درآمد کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔

جہازوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والی ویب سائٹس سے پتا چلتا ہے کہ ایران کا پرچم بردار کارگو جہاز 'جیران' پیر کو چین سے روانہ ہوا تھا۔ یہ جہاز اپنی متوقع روانگی سے ایک ماہ کی تاخیر کے بعد روانہ ہوا ہے۔

جنوری اور فروری میں فنانشل ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل اور سی این این میں شائع مضامین میں جیران کا ذکر کیا گیا تھا۔ ان مضامین میں کہا گیا تھا کہ جیران اُن دو ایرانی مال بردار جہازوں میں سے ایک ہے جسے تہران چین سے ایک ہزار میٹرک ٹن سوڈیم پرکلوریٹ درآمد کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

ان تینوں میڈیا اداروں نے نامعلوم انٹیلی جینس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایران پہنچنے والی مبینہ شپ منٹ کو امونیم پرکلوریٹ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جس سے 260 درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تیار کیے جا سکتے ہیں۔ امونیم پرکلوریٹ ٹھوس ایندھن پروپیلنٹ کا ایک اہم جزو ہے۔

نیوز رپورٹس میں دوسرے ایرانی کارگو شپ 'گولبن' کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو 13فروری کو ایران کی بندر عباس پورٹ پہنچا تھا۔ اس جہاز نے مشرقی چین سے ایران تک کا سفر 19 دن میں مکمل کیا تھا۔

شپ ٹریکنگ ویب سائٹ میرین ٹریفک کے مطابق اپنے سفر کے دوران جہاز نے جنوبی چین کی زوہائی جیلن پورٹ میں دو دن اسٹاپ کیا اور ایک نامعلوم کارگو ایران ڈیلیور کیا۔

واضح رہے کہ گولبن اور جیران دونوں پر امریکی محکمۂ خزانہ کی جانب سے پابندیاں عائد ہیں کیوں کہ یہ دونوں جہاز ایران کی سرکاری شپنگ لائنز کے زیرِ انتظام ہیں۔

جنوری کے آخر اور فروری کے اوائل میں جب گولبن چین سے ایران کی طرف روانہ ہوا تو جیران کے خود کار شناختی نظام (اے آئی ایس) ٹرانسپونڈر نے رپورٹ کیا کہ جہاز مشرقی چین کے لیو ہینگ جزیرے پر لنگر انداز ہے۔

ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فروری سے مارچ کے اوائل تک لیوہینگ جزیرے پر لنگر انداز ہونے کے دوران جیران میں کوئی خاص تبدیلی رپورٹ نہیں ہوئی۔

جیران تین مارچ تک لیو ہینگ آئی لینڈ پر ہی رہا جس کے بعد وہ زوہائی جیلن کی طرف روانہ ہوا اور وہاں بندرگاہ پر آٹھ مارچ کو لنگر انداز ہوا۔ دو دن بعد جیران اپنی منزل بندر عباس کے لیے روانہ ہوا جہاں 26 مارچ تک اس کی آمد متوقع ہے۔

دبئی میں موجود انٹیلی جینس تجزیہ کار مارٹن کیلی نے وی او اے کو بتایا کہ زوہائی جیلن سے روانہ ہونے پر ایرانی جہاز کے ڈرافٹ میں ایک اہم تبدیلی رپورٹ ہوئی اور ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پانی میں دو میٹر زیادہ گہرا تھا جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بندرگاہ پر جہاز پر بڑا کارگو لادا گیا۔

جمعے کو مقامی وقت کے مطابق جیران انڈونیشیا کے پانیوں میں تھا اور یہ آبنائے سنگاپور کی طرف بڑھ رہا تھا۔

جیران کی چین سے روانگی سے متعلق وی او اے کے رابطہ کرنے پر امریکی محکمۂ خارجہ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسی طرح نیو یارک میں ایران کے اقوامِ متحدہ مشن نے بھی منگل کو بھیجی گئی وی او اے کی ای میل کا جواب نہیں دیا۔

گزشتہ ماہ امریکی محکمۂ خارجہ نے وی او اے کو بتایا تھا کہ وہ ایران کی جانب سے چین سے سوڈیم پرکلوریٹ درآمد کرنے کے لیے گولبن اور جیران کے مبینہ استعمال سے متعلق فنانشل ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹس سے آگاہ ہے۔

ترجمان نے کہا تھا کہ محکمۂ خارجہ انٹیلی جینس معاملات پر تبصرہ نہیں کرتا لیکن ایسی اشیا، آلات اور ٹیکنالوجی کو روکنے پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے جو ایران کے میزائل یا دیگر ہتھیاروں کے پروگرام کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور وہ پابندیوں کے ذریعے ایران کو جوابدہ ٹھہرانا جاری رکھے ہوئے ہے۔

چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے 23 جنوری کی پریس بریفنگ میں ان نیوز رپورٹس پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین اپنے ایکسپورٹ کنٹرولز اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پاسداری کرتا ہے اور دیگر ممالک کے نفاذ کو بیجنگ غیر قانونی یکطرفہ پابندیاں تصور کرتا ہے۔

پولیٹیکل رسک کنسلٹینسی یوریشیا گروپ کے ایران کے معاملات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار گریگوری بریو کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ایران جیران سے قبل گولبن کو بھیج کر یہ دیکھنا چاہتا ہو کہ آیا یہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا سفر مکمل کرسکتا ہے یا نہیں۔

ان کے بقول ایران کی میزائل انڈسٹری سے متعلق انتہائی حساس مواد لے جانے والے امریکی پابندی کا شکار بحری جہاز کو روکے جانے کا خطرہ ہے اور ایران غالباً اس سے واقف ہے۔

تاہم گولبن کے چین سے ایران کے حالیہ سفر کے دوران اسے روکے جانے کے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں۔

اس رپورٹ کے لیے وائس آف امریکہ کی مینڈرین سروس نے بھی معاونت کی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG