پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو اُن 14 ارکان کی تلاش ہے جنہوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت میں ووٹ دینے کے بجائے صادق سنجرانی کے حق میں ووٹ دیا۔
حزبِ اختلاف چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ان 14 ارکان کی حمایت نہ ملنے کو ’نادیدہ قوتوں‘ کا کارنامہ قرار دے رہی ہے جب کہ حکومتی جماعت نے ان ارکان کو ’ان سنگ ہیرو‘ قرار دیا ہے۔
جمعرات کو چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کے حق میں 64 ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر قرارداد کی حمایت کی تھی لیکن اس کے ایک گھنٹے بعد ہونے والی خفیہ رائے شماری میں تحریکِ عدم اعتماد کے حق میں صرف 50 ووٹ پڑے۔
سوال یہ ہے کہ باقی 14 اراکین نے اپوزیشن کی حمایت کے باجود ووٹ کیوں نہیں دیا؟
اس سلسلے میں سب سے واضح ردّعمل متحدہ اپوزیشن کے نامزد چیئرمین سینیٹ حاصل بزنجو کا سامنے آیا جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ خفیہ رائے شماری کے دوران یہ 14 ارکان کون تھے جنہوں نے آج آپ کا ساتھ نہیں دیا؟
حاصل بزنجو نے اس کے جواب میں کہا کہ ’یہ سب جنرل فیض کے لوگ ہیں، جانتے ہیں آپ جنرل فیض کو؟ آئی ایس آئی کے چیف ہیں۔‘
حاصل بزنجو کی یہ ویڈیو گزشتہ روز پاکستان کے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
کئی افراد نے حاصل بزنجو کو ان کی ہمت پر داد دی تو وہیں کچھ لوگوں نے پاکستان کی سیاست میں فوج بالخصوص آئی ایس آئی کے کردار پر سوالیہ نشان اُٹھائے ۔
سوشل میڈیا پر صارفین نے فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید جو اُس وقت آئی ایس آئی میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے، نے اختیارات سے تجاوز کیا تھا۔
حاصل بزنجو کے بیان کے بعد پاکستان کی فوج کی جانب سے ردّعمل سامنے آیا ہے۔
Remarks by Senator Mir Hasil Bizenjo implicating head of national premier institution are unfounded. The tendency to bring entire democratic process into disrepute for petty political gains doesn’t serve democracy.
— DG ISPR (@OfficialDGISPR) August 1, 2019
فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ (آئی ایس پی آر) کے آفیشل اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کی گئی کہ قومی ادارے کے سربراہ پر الزامات بے بنیاد ہیں اور معمولی سیاسی فوائد کی خاطر پورے جمہوری عمل کو بدنام کرنا جمہوریت کی خدمت نہیں ہے۔
خاتون صحافی ثنا بُچہ نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹوئٹ کے جواب میں لکھا کہ ’سر مجھے بقایا پیسوں کا طعنہ اور گالیاں بے شک دلواتے رہیں لیکن جمہوریت پہ لیکچر۔۔۔۔ایک عام آدمی کو کم از کم رائے اور سانس اپنی مرضی سے لے لینے دیں۔۔۔ہم آپ کے مشکور رہیں گے۔‘
سر... مجھے بقایا پیسوں کا طعنہ اور گالیاں بے شک دلواتے رہیں لیکن جمہوریت پہ لیکچر۔۔۔۔ایک عام آدمی کو کم از کم رائے اور سانس اپنی مرضی سے لے لینے دیں۔۔۔ہم آپ کے مشکور رہیں گے 🙏 pic.twitter.com/U8wzxHgXfi
— Sana Bucha (@sanabucha) August 2, 2019
معروف قانون دان بابر ستار نے ’آئی ایس پی آر ‘کی ٹوئٹ کے جواب میں لکھا کہ ’اب ہر اہم قومی معاملے پر ہم آئی ایس پی آر کے فوری فیصلے سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اب وہ وقت آ گیا ہے جب آئی ایس پی آر کو وزراتِ سچائی ڈکلیئر کر دیا جائے۔
Now that we have the benefit of ISPR%27s instant verdict on all matters of national importance, maybe it is also time to rename and declare ISPR as the Ministry of Truth. #NotNineteenEightyFour https://t.co/KmksPRclmJ
— Babar Sattar (@Babar_Sattar) August 2, 2019
پاکستانی فوج کے ایک سابق لیفٹیننٹ جنرل غلام مرتضیٰ نے تجویز دی کہ حاصل بزنجو کو سپریم کورٹ لے جایا جائے اور وہاں وہ آئی ایس آئی کے خلاف لگائے گئے اپنے سنگین الزامات کو ثابت کریں۔ اگر حاصل بزنجو الزامات ثابت نہیں کر سکتے تو انہیں مثالی سزا دینی چاہیے۔
I would recommend that Mr. Hasil Bizenjo be taken to Supreme Court and asked to prove his very dangerous allegations against DG ISI. If he fails then he must be given exemplary punishment to discourage this extremely negative trend. #Senate #SenateElections #ChairmanSenate
— Lt Gen Ghulam Mustafa - (Retd) (@_GhulamMustafa_) August 1, 2019
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے ان کے جواب میں کہا کہ’ بزنجو صاحب کو بالکل سپریم کورٹ لے کر جائیں۔ اس سے فیض آباد دھرنے کے کیس میں آئی ایس آئی کا کردار، اصغر خان کیس اور لاپتا افراد کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی یاد تازہ ہو جائے گی۔‘
By all means take Bizenjo to Supreme Court. It will refresh memory about SC verdicts on ISI role in Faizabad dharna, Asghar Khan case and missing persons cases. Regurgitate these verdicts of SC, even if unable to implement, and Bizenjo may be found to have made an understatement https://t.co/aCWERm44Qs
— Farhatullah Babar (@FarhatullahB) August 2, 2019
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے لکھا کہ ’ایسا کس دوسرے ملک میں ہوتا ہے کہ جہاں ملک کی خفیہ ایجنسی کی سیاست میں شمولیت کو سپریم کورٹ تسلیم کرے اور وہ خود کو قومی ادارہ بھی کہلائے۔‘
In what other country is an intelligence service, known & acknowledged (by Supreme Court more than once) to manipulate politics, called “national premier institution?” & then they wonder why no one except their interns believes them 😏 https://t.co/nMPGRYFyaH
— Husain Haqqani (@husainhaqqani) August 1, 2019
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حاصل بزنجو کے الزام کے جواب میں فوج کے ادارے کو جواب کیوں دینا پڑا۔
فوج کا جواب دینا ضروری کیوں؟
دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا ہے کہ سیاست دان اپنی کوتاہیوں کا الزام دوسرے اداروں پر عائد نہ کریں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فوج کے خلاف بیانات دینے سے سرحدوں پر تعینات جوانوں کا حوصلہ پست ہوتا ہے۔
امجد شعیب کے مطابق فوج مخالف بیانات سے لوگوں کے ذہنوں میں فوج کے خلاف رائے قائم ہوتی ہے اس لیے آئی ایس پی آر کو فوری جواب دینا چاہیے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی فوج کے سربراہ کے بجائے وزیرِ اعظم کے ماتحت ہے۔ لیکن امجد شعیب کے بقول اگر حکومت خاموش رہے تو پھر فوج کو جواب دینا پڑتا ہے۔
سوشل میڈیا پر سرگرم صحافی ماروی سرمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سویلین چہرے میں اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی سیاست میں فوج کے کردار پر اشاروں کنایوں میں تو باتیں ہوتی ہیں لیکن جب سینیٹ الیکشن میں شکست کا ذمّہ دار براہ راست آئی ایس آئی کو ٹھہرایا جائے گا تو جواب تو آئے گا۔
ماروِی سرمد کے مطابق فوج کی جانب سے فوری ردّعمل سیاسی جماعتوں کے لیے ایک اشارہ بھی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں فوج کی مداخلت رہی ہے لیکن ملک میں جمہوریت کو مضبوط خطوط پر استوار کرنے کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔