پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا 'سینیٹ' کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو عہدے سے ہٹانے کے لیے پیش کی جانے والی تحاریکِ عدم اعتماد مطلوبہ ووٹ نہ ملنے پر مسترد کر دی گئی ہیں۔
سینیٹ میں چیئرمین کو ہٹانے کے لیے پیش کی گئی اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد پر جمعرات کو ہونے والی رائے شماری میں 104 کے ایوان میں سے 100 سینیٹرز نے حصہ لیا۔
تحریکِ عدم اعتماد کے حق میں 50 ووٹ آئے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی حمایت میں 45 ووٹ ڈالے گئے جب کہ پانچ ووٹ مسترد ہوئے۔
ایوان کی کارروائی چلانے والے سینیٹر بیرسٹر سیف نے ووٹنگ کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی قرارداد مطلوبہ ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے مسترد کی جاتی ہے۔
جمعرات کو ایوان کی کارروائی شروع ہوئی تو قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ظفر الحق نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی۔ ایوان میں موجود حزبِ اختلاف کے 64 سینیٹرز نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر تحریک کی حمایت کی۔
حزبِ اختلاف اور حکومت کی جانب سے تحریک پر بحث سے گریز کیا گیا۔ جس کے بعد اس پر ووٹنگ کرائی گئی۔
تاہم دلچسپ طور پر خفیہ رائے شماری کے نتائج کے مطابق قرارداد کے حق میں صرف 50 ووٹ نکلے حالاںکہ حزبِ اختلاف کے 64 سینیٹرز نے اس کی حمایت کی تھی۔
چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد اپوزیشن کے حمایت یافتہ ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف قائدِ ایوان شبلی فراز نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جس پر رائے شماری کرائی گئی۔
تحریک کے حق میں صرف 32 ووٹ آئے۔ مطلوبہ ووٹ نہ ملنے پر یہ تحریک بھی مسترد ہو گئی۔
دوسری جانب اپوزیشن نے تحریک پر ہونے والی ووٹنگ میں شرکت سے گریز کیا اور اس کے صرف تین ارکان نے تحریک کے خلاف ووٹ ڈالے۔
سینیٹ میں ملک کے چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی ہے اور گزشتہ کئی برس سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین میں سے کوئی ایک عہدہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کو دینے کی روایت رہی ہے۔
چیئرمین سینیٹ بلوچستان سے صادق سنجرانی ہیں جب کہ ڈپٹی چیئرمین پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا ہیں۔
حزبِ اختلاف نے چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو کو اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔ لیکن موجودہ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہونے کے بعد نئے چیئرمین کا انتخاب عمل میں نہیں آیا۔
سینیٹ میں اس وقت کل 103 اراکین ہیں اور حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اپنی تحاریکِ عدم اعتماد منظور کرانے کے لیے کم از کم 53 ارکان کی حمایت درکار تھی۔
سیاسی جماعتوں کی عددی صورتِ حال
سینیٹ میں جماعتوں کی عددی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت پیپلز پارٹی کے 20، مسلم لیگ (ن) کے 16، نیشنل پارٹی کے پانچ اور جمعیت علماءِ اسلام (ف) کے چار ارکان ہیں۔
سینیٹ میں 29 آزاد اراکین میں سے بیشتر کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ خیال رہے کہ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو انتخابی قواعد کی بنا پر آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لینا پڑا تھا۔
اس کے علاوہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے دو اور عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رکن کے ساتھ اپوزیشن اتحاد کے ارکانِ سینیٹ کی تعداد 66 ہے۔
سینیٹ میں دو نشستیں رکھنے والی جماعتِ اسلامی نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ جماعتِ اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ سینیٹ چیئرمین کے الیکشن میں جماعتِ اسلامی غیر جانب دار رہے گی۔ یہ ایک سیاسی دنگل ہو رہا ہے جس کا ہم حصہ نہیں بنیں گے۔
جماعتِ اسلامی کے دونوں سینیٹرز جمعرات کو ایوان میں نہیں آئے۔
خیال رہے کہ صادق سنجرانی کو گزشتہ سال پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف نے مشترکہ طور پر چیئرمین سینیٹ منتخب کرایا تھا۔ لیکن اب پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر انہیں ہٹانے کے لیے سرگرم ہوئی تھی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا جسے صادق سنجرانی نے مسترد کر دیا تھا۔
صادق سنجرانی گزشتہ برس مارچ میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حمایت سے 57 ووٹ حاصل کر کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تھے جب کہ ان کے مدِ مقابل مسلم لیگ (ن) کے راجا ظفر الحق کو 46 ووٹ ملے تھے۔
حیران کن طور پر 2018 کے سینیٹ انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کو دوبارہ منتخب کرنے کے لیے مدد کی پیشکش کی تھی۔ لیکن آصف علی زرداری نے اسے قبول کرنے کی بجائے تحریکِ انصاف سے ہاتھ ملا لیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمینٹ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے صادق سنجرانی کی بطور چیئرمین سینیٹ حمایت کی تھی۔ تاہم، اب اس نے انہیں ہٹانے کی حمایت کر کے پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کے راستے جدا ہو گئے ہیں۔