رسائی کے لنکس

یومِ سیاہ تو ہوگیا، آگے کیا ہوگا؟


پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو اور دیگر اپوزیشن رہنما کراچی کے جلسے مین شرکت کے دوران۔ 25 جولائی 2019
پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو اور دیگر اپوزیشن رہنما کراچی کے جلسے مین شرکت کے دوران۔ 25 جولائی 2019

پاکستان میں گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات کو مکمل ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ جس پر گزشتہ روز حکومت نے یوم تشکر منایا تو حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے اسے یوم سیاہ کے طور پر منایا۔

حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار نہیں آئی بلکہ اُسے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے سلیکٹ کیا ہے۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں ہونے والی حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس میں پچیس جولائی کا دن حکومت کے خلاف یوم سیاہ کے طور پر منانے اور چیئرمین سینٹ کی تبدیلی کے فیصلے کیے گئے تھے۔ چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کے لیے عددی طور پر تو حزب اختلاف کو حکومت پر برتری حاصل ہے لیکن حکومتی حلقے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں مل کر چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا یوم سیاہ کے بعد اب سارا زور چیئرمین سینٹ کی تبدیلی پر ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر اور رہنما قمر زمان کائرہ کہتے ہیں کہ احتجاج نقطہء آغاز ہوتے ہیں اور یوم سیاہ آغاز تھا۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ چئیرمین سینیٹ کی تبدیلی ہے۔ جس پر حکومت خاصی پریشان ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے بتایا کہ اپوزیشن جماعتوں نے اپنی اپنی جماعت کی سطح پر اور مل کر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے بعد رہبر کمیٹی فیصلہ کریے گی کہ اگلہ مرحلہ کیا ہو گا۔ قمر زمان کائرہ کہتے ہیں کہ کسی بھی حکومت پر دباؤ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے پہلے ہی روز مومینٹم کو آخری حد تک نہیں لے جایا جا سکتا۔

"ہمارا مقصد حکومت کی سمت درست کرنا ہے۔ اگر اِس احتجاج کو اِس دباؤ کو انہوں نے سمجھا تو ٹھیک ہے ورنہ احتجاج کی نوعیت اور شدت کو اور زیادہ بڑھا دیا جائے گا جس سے مومینٹم بنتا چلا جائے گا اور ظاہر ہے کہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہونا شروع ہو جائیں گی"۔

پاکسان مسلم لیگ (ن) پنجاب کی جنرل سیکٹری اور رہنما اعظمٰی بخاری کہتی ہیں کہ یوم سیاہ پر حکومت دباؤ کا شکار ہے کیونکہ جہاں بھی وہ جاتے ہیں تو وہاں ایف آئی آر درج کر دی جاتی ہیں۔ اگر حکومت پر دباؤ نہ ہو تو وہ ذرائع ابلاغ اور نشریاتی اداروں پر اپوزیشن کو بلیک آوٹ نہ کریں اور میڈیا کو دکھانے دیں کہ کتنے لوگ اکٹھے ہوئے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اعظمٰی بخاری نے کہا کہ حکومت اِس دباؤ کو چھپانے میں کتنی کامیاب ہوتی ہے یہ اُس کے لیے امتحان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اے پی سی کے پلیٹ فارم سے یوم سیاہ منانے اور چئیرمین سینٹ کو ہٹانے کی جو بات ہوئی، انکی جماعت اُس پر کام کر رہی ہے اور پارٹی کی سطح پر شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، ایاز صادق اور دیگر رہنماء الگ سے کام کر رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کہتے ہیں کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا یوم سیاہ پر شو توقعات سے بڑھ کر متحد بھی تھا، منظم بھی اور متاثرکن بھی۔ اگر حکومت نے اِس سے صحیح سبق سیکھا تو وہ مذاکرات کرے گی۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی کہتے ہیں کہ فی الحال حکومت کا دو چیزوں پر زیادہ زور ہے ایک میڈیا کے اُوپر دباو اور پابندیاں اور دوسرا سیاستدانوں کے اوپر دباو بڑھانا۔

XS
SM
MD
LG