پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ فلموں سے متعلق رائے دینا کونسل کا کام نہیں ہے۔ البتہ حکومت اگر حکومت کسی معاملے پر رہنمائی چاہے تو اپنی رائے دے سکتے ہیں۔
پاکستان میں ہدایت کار سرمد سلطان کھوسٹ کی فلم 'زندگی تماشا' کے حوالے سے بعض مذہبی طبقات کے اعتراضات سامنے آنے کے بعد فلم کی 24 جنوری کو طے شدہ ریلیز روک دی گئی تھی۔ اس کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت نے معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوا دیا تھا۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ "ہم سے سوالات کیے جا رہے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل اس بات کو یقینی بنائے کہ داڑھی کو لمبا رکھا جائے اور خواتین کے لیے الگ سے تعلیمی ادارے بنائے جائیں۔"
اُنہوں نے کہا پاکستان میں حقوق العباد کے خیال رکھنے کی بجائے ظاہری چیزوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلم اور ڈراموں کے ماہرین سے مشورہ لیں گے۔ ہم کوئی بھی رائے کسی دباؤ میں آ کر نہیں دیں گے۔ فیصلہ دینا صرف متعلقہ اداروں کا کام ہے، ہم فلم 'زندگی تماشا' کے بارے میں فیصلہ نہیں صرف رائے دیں گے۔
پاکستان کے صوبے پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے ہدایت کار سرمد سلطان کھوسٹ کی فلم 'زندگی تماشا' کی ریلیز روک دی تھی۔ محکمۂ ثقافت پنجاب کے نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ شکایات موصول ہونے کے باعث فلم کی ریلیز روکی گئی۔
سرمد سلطان کھوسٹ کو فلم کے دوبارہ جائزے کے لیے تین فروری کو لاہور کے کسی بھی سنیما گھر میں شو منعقد کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس کے بعد وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے ایک ٹوئٹ میں اس فلم کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوانے کا اعلان کیا تھا۔
فلم کے خلاف اجتجاج
فلم کی ریلیز سے قبل ہی مذہبی حلقوں کی جانب سے اس کے موضوع پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ مذہبی تنظیم تحریک لبیک نے فلم کی ریلیز روکنے کے لیے ملک گیر احتجاج کا بھی اعلان کیا تھا۔
مذہبی سیاسی جماعت 'تحریکِ لبیک پاکستان' کے سربراہ خادم حسین رضوی نے اس فلم کے خلاف 22 جنوری کو لاہور میں اجتجاجی ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا تاہم فلم کی ریلیز رکنے پر اس اجتجاج کو موخر کردیا گیا تھا۔
فلم ساز سرمد کھوسٹ نے سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر اپنے مداحوں سے سوال کیا تھا کہ کیا میں 'زندگی تماشا' کو ریلیز کروں یا نہ کروں؟' تو دوسری جانب کھوسٹ فلمز پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر عرفان علی کھوسٹ نے عدالت سے بھی رجوع کیا تھا، تاہم حکومت کی جانب سے نمائش روکے جانے کے بعد انہوں نے اپنی درخواست واپس لے لی تھی۔
عدالت میں دائر ہونے والی درخواست میں سرمد کھوسٹ نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ مذہبی جماعت کی جانب سے فلم کو روکنے کی دھکمیاں دی جارہی ہیں۔ حالاںکہ فلم میں کوئی ایسا مواد شامل نہیں جس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوں۔ لہذا عدالت مذہبی جماعت کو فلم کی ریلیز کے خلاف اقدامات کرنے سے روکنے کا حکم دے۔
سرمد کھوسٹ کیا کہتے ہیں؟
سرمد کھوسٹ کی نئی فلم ’زندگی تماشا‘ کو مختلف عالمی میلوں میں پذیرائی مل چکی ہے۔ 'زندگی تماشا' کے حوالے سے بعض حلقوں کو اعتراض ہے کہ فلم میں شعائرِ اسلام کا مذاق اُڑایا گیا ہے۔
سرمد سلطان کھوسٹ نے وضاحت کی ہے کہ 'زندگی تماشا' میں ایسا کچھ نہیں جسے مذہبی، سیاسی یا سماجی اعتبار سے قابلِ اعتراض قرار دیا جا سکے۔
سرمد کھوسٹ نے کہا کہ مرکزی سینسر بورڈ نے اس فلم کو تین بار اسکرین کیا اور ہر بار اسے پاس کیا۔ اس فلم میں کوئی قابلِ اعتراض مواد نہیں ہے۔
اس فلم کے حساس موضوع کی وجہ سے بہت کم تعداد میں افراد اس کی حمایت میں سامنے آ رہے ہیں۔ تاہم بعض اداکاروں نے سرمد کی اس نئی فلم کی حمایت کی ہے اور فلم ریلیز کرنے پر زور دیا ہے۔
اداکار ہمایوں سعید نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا ہے کہ حکومت کو جلد از جلد اس بارے میں نوٹس لینا چاہیے۔ پاکستان میں فلم سازی ایک مشکل کام ہے اور جو لوگ یہ کام کرنے کی ہمت کرتے ہیں انہیں حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
فلم اسٹار ماہرہ خان نے فلم کو ریلیز کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مشکل کو بتاؤ کہ اللہ کتنا بڑا ہے۔
اداکارہ میرا سیٹھی نے کہا کہ سینسر بورڈ نے فلم کو کلیئر کردیا ہے تاہم ان آفیشل سینسر بورڈ اسٹریٹ پاور کے ذریعے اس فلم کو روکنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے سرمد کھوسٹ اور ان کی ٹیم پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
رمل بانو کی تحریر کردہ اور سرمد کھوسٹ کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’زندگی تماشا‘ اردو اور پنجابی زبان میں بنائی گئی ہے۔ فلم میں عارف حسن کے علاوہ اداکارہ سمعیہ ممتاز، ماڈل ایمان سلیمان اور علی قریشی نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔