پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنی سابقہ وزارت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے عالمی سطح پر منفی تاثر کی ذمہ دار وزارتِ اطلاعات ہے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وزارتِ اطلاعات نے وائس آف امریکہ سمیت دیگر بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے ساتھ رابطوں کو کبھی ترجیح نہیں دی۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے متعلق وزارتِ اطلاعات کا شعبہ 'ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ' مکمل طور پر غیر فعال ہو چکا ہے جس کی بڑی وجہ غیر ملکی صحافیوں سے رابطے نہ ہونا ہے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ غیر ملکی صحافیوں کو پاکستان میں ویزہ مسائل کا سامنا ہے اور ایجنسیاں ان کے پیچھے پڑ جاتی ہیں۔ ان کے بقول ایسے میں کیا کوئی توقع رکھ سکتا ہے کہ یہ ادارے پاکستان کا مثبت تشخص اُجاگر کریں گے؟
واضح رہے کہ حالیہ چند برسوں میں پاکستان کی جانب سے غیر ملکی صحافیوں کو ویزے جاری کرنے کی شرح میں کمی آئی ہے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی صحافیوں کو مختلف انتظامی مسائل کا بھی سامنا رہتا ہے اور انہیں مخصوص شہروں تک محدود رہ کر ہی کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
'وزارت اطلاعات کا بجٹ ضائع ہو رہا ہے'
وی او اے سے گفتگو میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وزارتِ اطلاعات میں ہنگامی طور پر انتظامی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے بقول جب وہ وزیرِ اطلاعات تھے تو صحافی برادری نہیں، بلکہ میڈیا مالکان ان سے ناراض تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور میڈیا کے لیے ایک دوسرے کو خوش رکھنا ضروری نہیں، بلکہ میڈیا کو حکومت کے 'واچ ڈاگ' کے طور پر کام کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ فواد چوہدری بطور وزیرِ اطلاعات میڈیا کو جاری کیے جانے والے اشتہارات سے متعلق حکومت کی پالیسی کے سخت ناقد تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اربوں روپے مالیت کے سرکاری اشتہارات اخبارات اور ٹی وی چینلز کو دیتی ہے لیکن میڈیا مالکان اپنے صحافتی اداروں کے بجائے یہ رقم اپنے دوسرے کاروبار میں لگا دیتے ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت نے 30 سے 40 ارب میڈیا کو اشتہارات کی مد میں دیے۔ اگر اتنی رقم مزید بھی میڈیا کو دے دیں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ان کے بقول میڈیا مالکان کے اخبار اور چینل کے علاوہ دوسرے کاروبار بھی ہیں اور وہ یہ رقم وہاں خرچ کر دیتے ہیں جب کہ میڈیا انڈسٹری اور اس سے منسلک صحافیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
گو کہ فواد چوہدری اب وزیرِ اطلاعات نہیں لیکن وہ پرامید ہیں کہ وزارت میں ان کی جانب سے متعارف کرائی گئی اصلاحات پر عمل درآمد سے پاکستان کے بیانیے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔
'حکومت کو کوئی سیاسی خطرہ نہیں'
ملک کی سیاسی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف کے پاس کوئی ایسا بیانیہ نہیں جسے عوام کی پذیرائی حاصل ہو۔ لہذا حکومت کو سیاسی محاذ پر کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طرزِ حکمرانی اور معاشی صورتِ حال میں بہتری کے لیے حکومت کو مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔
'پرانی دوربین سے چاند دیکھنا حلال تو نئی سے حرام کیوں؟'
پاکستان میں رویتِ ہلال سے متعلق جاری بحث پر بات کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سائنسی ترقی کے اس دور میں علمائے کرام کو چاند دیکھنے کے معاملے پر اتنی تگ و دو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ محکمۂ موسمیات، وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی اور قومی خلائی تحقیقاتی ادارے (سپارکو) کے ماہرین نے آئندہ پانچ سال کے لیے چاند کی پیدائش اور اس کے مقام کا تعین کر کے قمری کیلنڈر تیار کر لیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شرعی رائے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کے بعد اس قمری کیلنڈر کو کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں رمضان اور عید کا چاند دیکھنے کے معاملے پر ہمیشہ تنازع رہا ہے۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ پورے پاکستان میں ایک ساتھ رمضان کا آغاز ہوا ہو یا ایک ہی دن عید منائی گئی ہو۔
پاکستان میں چاند دیکھنے کی ذمہ داری سرکاری سطح پر قائم مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے پاس ہے جس کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے فواد چوہدری کی ان تجاویز پر تنقید کی ہے۔ ان کے بقول چاند دیکھنے کے لیے شرعی طور پر انسانی آنکھ کی شہادت لازمی ہے۔
فواد چوہدری ان تمام اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رویتِ ہلال کمیٹی اور پشاور کی مسجد قاسم خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی دلیل سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کے بقول 60 سال پرانی دوربین سے چاند دیکھنا حلال اور جدید دوربین سے چاند دیکھنا حرام کیسے ہو سکتا ہے؟
فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت رویتِ ہلال سے متعلق جدید سائنسی علوم کے استعمال کی حامی ہے۔ ان کے بقول قمری کیلنڈر کے مطابق پاکستان میں چار جون کو چاند نظر آجائے گا جب کہ عید 5 جون کو ہو گی۔
'وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ڈپٹی وزیرِ اعظم ہو تا ہے'
فواد چوہدری کو حال ہی میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کابینہ میں رد و بدل کے بعد وزارتِ اطلاعات سے ہٹا کر سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت سونپی تھی۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وزارت کا مطلب 'کھڈے لائن' لگانا ہے۔
فواد چوہدری اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ چین، کوریا اور ملائیشیا جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی کی حیثیت ڈپٹی وزیرِ اعظم جیسی ہوتی ہے۔ ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔
میڈیا میں متحرک رہنے کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کو استعمال کرنے کے سوال پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ میڈیا کو سائنس و ٹیکنالوجی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ملک نے ترقی کرنی ہے تو سائنس و ٹیکنالوجی کو اہمیت دینا ہو گی۔