پی ٹی ایم کا حکومتی جرگے سے یقین دہانیوں کا مطالبہ

پی ٹی ایم کے مرکزی قائد منظور پشتین (فائل فوٹو)

پی ٹی ایم کے نمائندوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس جرگے کو فیصلوں کا اختیار دیتے ہوئے باقاعدہ طور پر نوٹیفیکیشن جاری کرے۔

پشتون تحفظ تحریک نے حکومت کی طرف سے تشکیل شدہ جرگے کے ساتھ مذاکرات میں تحریک سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزیوں پر سوالات اٹھاتے ہوئے آئندہ مذاکرات میں ان کے جواب دینے کا مطالبہ کردیا ہے۔

'پی ٹی ایم' کے نامزد کردہ جرگے کے ارکان اور حکومتی جرگے کے درمیان جمعے کو پشاور میں ملاقات ہوئی جس میں طرفین نے مذاکرات کا عمل تو جاری رکھنے پر اتفاق کیا لیکن تحریک کی طرف سے یقین دہانیوں سمیت بعض دیگر مطالبات بھی رکھے گئے۔

جرگے میں 'پی ٹی ایم' کی طرف سے شریک لطیف آفریدی نے وائس آف امریکہ کو ان مذاکرات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک کے رہنماؤں کو اپنے حامیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر شدید تحفظات ہیں جن کا اس ملاقات میں کھل کر اظہار کیا گیا۔

ان کے بقول مئی میں جرگے کی پہلی ملاقات میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ پی ٹی ایم کے خلاف کارروائیاں نہیں ہوں گی۔ لیکن اس کے باوجود ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں تحریک کے مطابق جنوبی وزیرستان میں حکومت کے حامی عسکریت پسندوں کے حملے میں 11 کارکنان کی ہلاکت بھی شامل ہے۔

"پنڈی اسلام آباد میں گرفتاریاں، شمالی وزیرستان اور بنوں میں (پی ٹی ایم کارکنان کی) گرفتاریاں اور ایک لیڈر کو شمالی وزیرستان سے نکالنا تو ان تمام باتوں کو اور جو دوسرے ان کے شکوے تھے، جرگے کی طرف سے دوسرے فریق کو پہنچا دیے گئے کہ آپ نے کہا تھا جرگے کے دوران ایسا کام نہیں ہوگا۔ یہ کیوں ہوا؟"

لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ حکومتی جرگے نے یقین دلایا ہے کہ وہ بھرپور کوشش کریں گے کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔

تاہم ان کے بقول پی ٹی ایم کے نمائندوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس جرگے کو فیصلوں کا اختیار دیتے ہوئے باقاعدہ طور پر نوٹیفیکیشن جاری کرے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی جرگہ پی ٹی ایم کے تحفظات اور شکایات پر فوج سمیت متعلقہ حکام سے بات چیت کرے گا اور اس بات پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ آئندہ جرگہ یکم جولائی کو منعقد ہو گا۔

پشتونوں کی جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور قبائلی اضلاع میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف رواں سال کے اوائل سے 'پشتون تحفظ تحریک' شروع ہوئی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے پشتون علاقوں میں خاصی مقبول ہوچکی ہے۔

اس تحریک نے ملک کے تقریباً سب ہی بڑے شہروں میں جلسے منعقد کیے ہیں جس میں اسے انسانی و سماجی حقوق کے کارکنان کی حمایت بھی حاصل ہوئی۔

دریں اثنا اسی تحریک کے دو اہم رہنماؤں علی وزیر اور محسن داوڑ نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں شمالی و جنوبی وزیرستان سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر بطور امیدوار کاغذاتِ نامزدگی بھی جمع کرائے ہیں لیکن ان علاقوں کی صورتِ حال اور مقامی انتظامیہ کے مبینہ مخاصمانہ رویے کی وجہ سے تاحال انھوں نے اپنی انتخابی مہم شروع نہیں کی ہے۔