پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے کہا ہے کہ وہ آخری لاپتہ شخص کی بازیابی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لئے وہ ہر آئینی اور قانونی طریقہ کار اختیار کریں گے۔
کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے منظور پشتین کا کہنا تھا کہ شہریوں کو تحفظ دینا ریاست کا کام ہے، ریاستی اداروں کا شہریوں کے ساتھ دشمن والا رویہ نہیں ہونا چاہیے۔ ملک کے ریاستی اداروں نے جو کچھ کیا وہ ایک تلخ حقائق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ ایسے لوگوں کو ظالم ہی کہا جائے گا۔
منظور پشتین کا کہنا تھا کہ کراچی میں سب سے زیادہ ماوائے عدالت قتل ہوئے۔ سابق ایس پی راؤ انوار نے 440 لوگوں کو قتل کیا۔ انہوں نے سابق ایس پی راؤ انوار کو دہشت گرد اور ایس پی کی سربراہی میں مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے قبائلی نوجوان نقیب اللہ کو عوام کا ہیرو قرار دیا۔
منظور پشتین کا کہنا تھا کہ کراچی میں جس کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی اسکے ساتھ عدالت جائیں گے اور مظلوں کا ساتھ دیں گے۔
منظور پشتین نے سابق صدر پرویز مشرف اور کالعدم تحریک پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان پر بھی شدید تنقید کرتے ہویے کہا کہ وہ ان دونوں کو سزا دلوا کر رہیں گے۔
منظور پشتین نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین میں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے اور یہ حق نہ ملنے پر اس کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔
منظور پشتین نے جلسے میں شریک کئی ہزار افراد کو بتایا کہ فاٹا میں حقوق کی یہ تحریک اٹھ رہی ہے اور تحریک اٹھنے کی وجہ یہ ہے کہ قبائلی علاقے کے عوام 18 سال کی جنگ میں لٹ گئے ہیں۔
منظور پشتین نے عہد کیا کہ وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے چاہے انہیں اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ منظور نے واضح کیا کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے پرامن اور آئینی راستے اختیار کریں گے اور اسی پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ آخری لاپتہ شخص کی بازیابی اور ہر مظلوم کے حقوق کے لئے وہ ڈٹے رہیں گے۔
منظور پشتین نے اپنی تقریر میں پاکستانی میڈیا پر بھی کڑی تنقید کی اور کہا کہ اس پر ریاستی اداروں کی پالیسی کا قبضہ ہے۔
منظور پشتین نے مطالبہ کیا کہ حکومت سچائی کا کھوج لگانے اور مصالحت کے لئے کمیشن کا قیام عمل میں لائے۔ انہوں نے اس بات کا سختی سے انکار کیا انہیں کسی بھی طرح کی بیرونی امداد مل رہی ہے۔
اس سے قبل جلسے میں شرکت کے لئے منظور پشتین وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سے بذریعہ سڑک کراچی پہنچے۔ منظور کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ انہیں جگہ جگہ سیکورٹی اداروں نے روکا اور انہیں کراچی دیر سے پہنچنے پر مجبور کیا گیا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ جس میں سماجی ورکرز، مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے کارکنان اور وکلاء بھی شامل تھے۔
ایسے افراد کی بھی بڑی تعداد موجود تھی جن کے پیارے کافی عرصے سے لاپتہ ہیں۔ بعض کے بارے میں معلوم ہوچکا ہے کہ وہ سیکورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں لیکن طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی انہیں کسی بھی الزام میں عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا جبکہ بعض کی خیریت کے بارے میں آج تک کچھ بھی معلوم نہ ہوسکا۔
پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ کراچی پہنچ گئے جہاں اُنہوں نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اغوا کئے جانے والے افراد کو رہا نہ کیا گیا اور دھمکیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو منگل کو ملک بھر میں احتجاج کیا جائے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ جرگے کی بات کی جا رہی ہے لیکن جرگہ تو دو دشمنوں کے درمیان ہوتا ہے جبکہ عوام اور ریاست کے درمیان تو آئین ہوتا ہے۔ تاہم اگر یہ مسئلہ جرگے کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں اور ہم ایسا کرنے کیلئے تیار ہیں۔
اس سے پہلے جلسے کے منتظمین نے اعلان کیا ہے کہ جب تک 'پی ٹی ایم' کے سربراہ منظور پشتین جلسے میں پہنچ کر شرکا سے خطاب نہیں کرلیتے وہ اپنا جلسہ ختم نہیں کریں گے۔
جلسے میں شرکت کے لیے 'پی ٹی ایم' کے سربراہ منظور پشتین ہفتے کو بذریعہ سڑک اسلام آباد سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے تھے لیکن 'پی ٹی ایم' رہنماؤں نے الزام لگایا ہے کہ پشتین اور ان کے ساتھیوں کو راستے میں جگہ جگہ روکا اور تنگ کیا جارہا ہے۔
اس سے قبل سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ پشتین کو کراچی میں داخلے پر گرفتار کرلیا گیا تھا تاہم 'پی ٹی ایم' کے بعض رہنماؤں نے ٹوئٹر پر اس کی تردید کی ہے۔
کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں ہونے والے اس جلسے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے تھے اور پی ٹی ایم' کے گزشتہ تمام جلسوں کی طرح کراچی کے جلسے میں بھی لاپتا افراد کے لواحقین کی بڑی تعداد موجود تھی۔
ہفتے کو 'پی ٹی ایم' رہنماؤں نے الزام عائد کیا تھا کہ منظور پشتین کو جلسے میں شرکت سے روکنے کے لیے حکام نے ان کا ہوائی ٹکٹ منسوخ کردیا تھا۔
'پی ٹی ایم' کے بعض رہنماؤں نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں کہا تھا کہ نجی ایئرلائن کے عملے نے منظور پشتین کو بورڈنگ کارڈ جاری کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ ان کا ٹکٹ منسوخ کردیا گیا ہے۔
رہنماؤں نے الزام لگایا تھا کہ ہوائی اڈے پر موجود دیگر ایئرلائنز کے عملے نے بھی خفیہ ایجنسی کے ایک اہلکار کے اشارے پر منظور پشتین کو ٹکٹ دینے سے انکار کردیا تھا۔
کراچی میں جلسے کے منتظمین نے الزام لگایا تھا کہ ان کے جلسے کو ناکام بنانے کے لیے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران شہر کے مختلف علاقوں سے سکیورٹی اداروں نے ان کے 12 کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
اس سے قبل 'پی ٹی ایم' کے پشاور، لاہور اور سوات میں ہونے والے جلسوں کے انعقاد میں بھی مقامی انتظامیہ نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بعد ازاں 'پی ٹی ایم' کو ان شہروں میں جلسوں کی اجازت دیدی گئی تھی۔
پشتون تحفظ تحریک رواں سال کے آغاز پر قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے کراچی میں پولیس کے ایک جعلی مقابلے میں ہلاکت کے بعد قائم کی گئی تھی۔
اس تحریک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی جانب سے پختونوں کے ساتھ مبینہ ناروا سلوک، ان کے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں اور پختون اکثریتی علاقوں میں سکیورٹی چوکیوں پر عوام کے ساتھ بدسلوکی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
تاہم پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا اس تحریک اور اس کی سرگرمیوں کو بالکل کوریج نہیں دے رہا جس سے اس تحریک کے حامی اور کارکن خاصے خائف ہیں اور اسے ریاست کی جانب سے عائد مبینہ سینسرشپ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
لیکن جیسے جیسے اس تحریک کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے ویسے ویسے اس کے خلاف بھی بالخصوص انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے آواز بلند ہورہی ہے۔ 'پی ٹی ایم' کے جلسوں میں ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی وجہ سے کئی افراد اس تحریک پر قوم پرستی کو فروغ دینے اور ملک دشمنوں کے آلۂ کار ہونے کا الزام بھی لگارہے ہیں۔
تاہم تحریک کے سربراہ منظور پشتین کا موقف ہے کہ پاکستان کے مقتدر ادارے ان کی تحریک سے خائف ہیں اور اسی لیے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف نہ صرف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے بلکہ انہیں دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کے خلاف پاکستان کے مختلف علاقوں میں ریاست مخالف سرگرمیوں، بغیر اجازت احتجاج اور غداری جیسے الزامات کے تحت مقدمات بھی درج کیے جاچکے ہیں۔