پاکستان میں جاری پری مون سون بارشوں سے بڑے شہروں اسلام آباد، لاہور ،راولپنڈی، پشاور اور کئی دیگر علاقوں میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ بعض علاقوں میں جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں، تاہم قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)نے ابھی تک ان کی تفصیلات جاری نہیں کیں۔
حکام کے مطابق شدید بارش کے دوران شمالی علاقوں اور گلگت بلتستان سے گزرنے والی جگلوٹ اسکردو روڈ لینڈ سلائیڈنگ کے سبب کئی مقامات پر بند ہو گئی ہے۔ سڑک کو صاف کرنے کا کام جاری ہے۔ مقامی لوگوں اور سیاحوں کو کہا گیا ہے کہ وہ اس سڑک پر سفر سے گریز کریں ۔
ڈپٹی کمشنر اسکردو کریم داد چغتائی نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ جگلوٹ اسکردو روڈ کو صاف کرنے کا کام جاری ہے۔
انہوں نے اس سڑ ک پر رات کو سفر کرنے سے قطعی طو ر پر گریز کی ہدایت کی ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے ایک بیان میں شدید بارشوں کی وجہ سے کراچی، لاہور، ملتان ، پشاور اور اسلام آباد سمیت دیگر بڑے شہروں میں اربن فلڈ نگ کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
شیری رحمٰن نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں تمام متعلقہ اداروں سے ملک میں جاری شدید بارشوں میں کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات کی ہدایت کی ہے۔
محکمۂ موسمیات نے ملک میں معمول کی مون سون بارشیں 28 اور 29 جون سے شروع ہونے کی پیش گوئی کی تھی البتہ مبصرین کے مطابق ملک میں جاری قبل از وقت مون سون کی شدید بارشیں اس سے پہلے نہیں دیکھی گئیں۔
گزشتہ تین ماہ کے دوران پاکستان کو گرمی کی غیر معمولی لہر کا سامنا رہا ہے اور کئی شہروں کے معمول کے درجۂ حرارت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ قبل از وقت مون سون بارشوں کی وجہ سےاکثر علاقوں میں گرمی کا زور ٹوٹ گیا ہے۔
ماہرِ موسمیات محمد حنیف کہتے ہیں کہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں حالیہ گرمی کے لہر طویل رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں مغرب اور سائبیریا سے سرد ہوائیں افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوئیں۔ یہ سرد ہوائیں ملک میں جاری پری مون سون بارشوں کی وجہ بنی ہیں جس کی وجہ سے درجۂ حرارت میں کمی ہوئی اور 21 جون کو اسلام آباد کا کم سے کم درجۂ حرارت 20 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو سال کا گرم ترین اور طویل دن ہوتاہے۔ یاد رہے کہ تاریخ میں قبل ازیں اس دن کا اسلام آباد میں کم از کم درجۂ حرارت 25 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
محکمۂ موسمیات کے مطابق بدھ کی شام کی بارشوں کا غیر معمولی سلسلہ ختم ہو جائے گا، جس کے بعد پانچ سے چھ دن تک موسم خشک رہے گا جب کہ 28 اور 29 جون کو مون سون بارشوں کا باقاعدہ آغاز ہوگا۔
مون سون کی بارشوں کے معمول کے سلسلے کا آغاز بھارت میں خلیج بنگال سے شروع ہونے کے بعد پاکستا ن میں داخل ہوگا۔
محکمۂ موسمیات کے پیش گوئی کے مطابق رواں سال مون سون کی بارشیں اچھی ہوں گی اور یہ بارشیں پاکستا ن کے تمام علاقوں پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں برسیں گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان بارشوں کی وجہ سے خریف کی فصلوں پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے جب کہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بلند ہو گی۔
اپریل اور مئی کے دوران پاکستان کے شمالی علاقوں میں درجۂ حرارت معمول سے چار سے پانچ ڈگری کم ریکارڈ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے رواں سال معمول کے مطابق برف نہ پگھلنے کی وجہ سے تربیلا ڈیم میں پانی کی قلت پیدا ہوئی ہے۔
محمد حنیف کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں درجۂ حرارت کم ہونے کی وجہ سے برف پگھلنے کا عمل جلد شروع نہیں ہو سکا۔
SEE ALSO: دہلی میں تیز ہواؤں کے ساتھ شدید بارش، تین افراد ہلاک، تاریخی جامع مسجد کو بھی نقصان پہنچاانہوں نے واضح کیا کہ جولائی کے پہلے ہفتے میں شمالی علاقوں کا مطلع صاف ہو جائے گا درجۂ حرارت بڑھنے سے برف پگھلنے کا عمل معمول کے مطابق شروع ہوگا اور جولائی میں تربیلاڈیم میں پانی مناسب مقدار میں موجود ہوگا۔
محمد حنیف کہتے ہیں کہ منگلا ڈیم میں 80 فی صد پانی مون سون کی بارشوں کی وجہ سے آتا ہے جب کہ تربیلا میں اس کے برعکس 80 فی صد پانی برف پگھلنے سے آتا ہے اور 20 فی صد پانی مون سون بارشوں سے جمع ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جولائی کی بارش کی وجہ سے منگلا ڈیم میں پانی کی سطح بلند ہو گی لیکن تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد کم ہو گی کیوں کہ برف کم پگھلنے کا عمل سست رہے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے دنوں میں مون سون بارشوں کی وجہ سے پنجا ب کے بالائی علاقوں میں چاول کی فصل پر اچھا اثر پڑے گا۔
محکمۂ موسمیات پیش گوئی کر چکا ہے کہ رواں سال مون سون بارشیں معمول سے زیادہ ہوں گی اور پاکستا ن کے 80 فی صد علاقے ان بارشوں سے مستفید ہوں گے۔ اس کے علاوہ جنوبی ایشیا بشمول بھارت ، نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش میں رواں سال مون سون کی بارشیں معمول سے زیادہ ہونے کی پیش گوئی کی جا چکی ہے۔