رسائی کے لنکس

بھارت: مودی کی قیادت میں 15 ہزار افراد کا میسور میں یوگا آسن


بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت میں 15 ہزار افراد نے میسور میں یوگا کیا۔
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت میں 15 ہزار افراد نے میسور میں یوگا کیا۔

اکیس جون کو یوگا کا آٹھواں عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر بھارت سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں یوگا تقریبات منعقد کی گئیں جن میں لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست کرناٹک کے شہر میسور میں منعقد ہونے والی تقریب میں حصہ لیا اور یوگا آسن کیے۔ اس تقریب میں 15 ہزار افراد نے شرکت کی اور وزیر اعظم مودی کے ساتھ یوگا کیا۔

وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ یوگا سے ہمیں امن و سکون ملتا ہے۔ اس سے نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ معاشرے میں، پوری دنیا میں بلکہ پوری کائنات میں شانتی آتی ہے۔

مودی کا کہنا تھا کہ یوگا ہمیں ایک دوسرے سے مربوط کرتا اور مسائل کو حل کرتا ہے۔ اس سے عالمی سطح پر دماغی و جسمانی صحت کی بحالی میں مدد ملتی ہے۔

نریندر مودی نے 14 ستمبر 2014 کو اقوامِ متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران یوگا کا عالمی دن منا نے کی تجویز دی تھی جسے منظور کیے جانے کے بعد 21 جون کو یوگا کا عالمی دن مقرر کیا گیا۔ یوگا کا پہلا عالمی دن 21 جون 2015 کو منایا گیا۔

یوگا ہے کیا؟

ماہرین کے مطابق یوگا بنیادی طور پر ایک انتہائی لطیف سائنس پر مبنی روحانی مشق کا نظام ہے جو دماغ اور جسم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے پر مرکوز ہے۔ یہ صحت مند زندگی گزارنے کا ایک فن ہے۔ لفظ یوگا سنسکرت کے لفظ ’یوج‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنیٰ ہے شامل ہونا یا متحد ہونا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یوگا کب شروع ہوا اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ روایات کے مطابق انسانی تہذیب کے آغاز میں ہی اس کی ایجاد ہوئی تھی۔

عالمی شہرت یافتہ یوگا انسٹرکٹر بدر الاسلام کہتے ہیں کہ اس کی تاریخ عظیم رشی منی مہارشی (ہندو کے مذہبی پیشوا) پاتانجلی کے وقت سے ملتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ اس کا ریکارڈ ہڑپا اور موہن جودڑو تہذیب میں بھی ملتا ہے۔

پاتانجلی نے اپنی تصنیف ’پاتانجل لوک درشن‘ میں یوگا کے قواعد و ضوابط درج کیے اور اسے ایک منظم فن کا درجہ دیا۔ اس کے بعد بہت سے گرووں نے اس کو فروغ دیا اور اس میں بہت سی نئی نئی مشقیں شامل ہوتی گئیں۔


بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے تاریخی شواہد ویدک عہد میں یعنی 2700 قبل مسیح ملتے ہیں۔ اس کے بارے میں ہندو مذہب کی متعدد کتب جیسے کہ وید، اپنشد اور پران وغیرہ سے معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے بعد آشرموں میں یوگا کی مشق کرائی جانے لگی اور اس کا دائرہ بڑھتا گیا۔

بدر الاسلام کا کہنا تھا کہ یوگا بھارت سے نکل کر پوری دنیا میں پھیلا لیکن اس کو عالمی سطح پر شہرت دلانے میں یورپی شہریوں کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے جب بھارت کی سیاحت کے موقع پر یوگا کی مشق دیکھی تو انہیں وہ بہت پسند آئی۔ انہوں نے اس کی کچھ عملی چیزیں اختیار کر لیں۔ انہوں نے اس کے سائنسی پہلو کو سمجھنے کی کوشش کی۔

آج امریکہ اور یورپی ملکوں میں یوگا کے بہت سے تربیتی مراکز ہیں۔ خود بھارت میں بھی اب سینکڑوں ٹریننگ سینٹرز ہیں اور حکومت نے ہزاروں یوگا انسٹرکٹرز کی بھرتی کی ہے۔ بدر الاسلام کے مطابق وہ 1975 سے لوگوں کو ٹریننگ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کم از کم پچاس ہزار اساتذہ اور اس سے کہیں زیادہ طلبہ کو ٹریننگ دی ہے۔

انہوں نے یوگا کو کسی مذہب سے جوڑ کر دیکھنے کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو ابتدائی یوگا گرو گزرے ہیں ان کی تصنیفات سے ایسا نہیں لگتا کہ ان کا کسی مذہب سے کوئی تعلق تھا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے کئی گرو کسی مذہب کو مانتے ہی نہیں تھے۔

خود اعتمادی کے لیے یوگا سیکھنے والی افغان لڑکیاں
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:38 0:00


یوگا کے بارے میں بالخصوص مسلم معاشرے میں اچھی رائے نہیں رکھی جاتی۔ مسلمانوں کا خیال ہے کہ یہ ہندو مذہب کا فن ہے۔ بالخصوص سوریہ نمسکار کا جو آسن ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دراصل سورج کی پوجا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کی اکثریت یوگا سے اب بھی دور ہے۔

بدرالاسلام کا کہنا تھا کہ بہار کے مونگیر میں واقع ایک آشرم نے تین سو سال قبل سوریہ نمسکار کا آغاز کیا تھا۔ جبکہ کئی بڑے آشرم او رانسٹی ٹیوٹ سوریہ نمسکار نہیں کراتے۔

ان کے مطابق اس میں طلوع آفتاب کے وقت سورج کی جانب منہ کرکے آسن یا مشق کی جاتی ہے۔ لیکن سوریہ نمسکار آسن میں سورج کی طرف پیٹھ کرنی ہوتی ہے نہ کہ چہرہ۔ جو لوگ ا س کی جانب رخ کرکے یہ آسن کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔ طلوع آفتاب کے وقت کرنیں پشت کی جانب سے جسم میں بہتر طور پر داخل ہوتی ہیں بمقابلہ چہرے کے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صوفیا میں بھی یوگا کی شکلیں ملتی ہیں۔ وہ لوگ ’حبس دم‘ کی مشق کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ کچھ یوگا گرو مشرف بہ اسلام ہو گئے ہوں اور انہوں نے صوفیا کے حلقے میں اسے رواج دیا ہو۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خود صوفیا کے نقشبندی سلسلے سے ہوتے ہوئے یوگا تک پہنچے۔

یوگا کو فطرت کے بھی قریب مانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر ٹریننگ سینٹرز پُرفضا مقامات پر ہیں جہاں لوگ فطرت کے قریب رہ کر اسے سیکھتے ہیں۔ یوگا میں کھانے پینے پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔ یوگا گرووں کا کہنا ہے کہ انسان کو بھوک سے کم کھانا چاہیے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یوگا سے جسمانی صحت بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور ذہنی و دماغی بھی۔ کرونا کی عالمی وبا کے دوران یوگا کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ گھروں میں قید تھے۔ ان ایام میں دل و دماغ کے سکون کے لیے بہت سے لوگوں نے یوگا کو اپنایا۔ بہت سے ڈاکٹرز بھی لوگوں کو یوگا کی مدد سے ذہنی و دماغی توازن قائم رکھنے پر زور دیتے تھے۔


خود وزیر اعظم مودی نے بھی اپنی تقریر میں کہا ہے کہ یوگا سے ہمیں امن و سکون حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ انہوں نے اس کی مدد سے پوری دنیا میں امن و سکون کے قیام کی بات کہی۔

لیکن بعض لوگوں کا سوال ہے کہ جب یوگا بھارت کی پیداوار ہے، یہیں اس کو سب سے زیادہ فروغ حاصل ہوا، یہیں سے وہ پوری دنیا میں پھیلا تو پھر یہاں کے معاشرے میں امن و سکون کیوں نہیں ہے۔ عوام یوگا کی مشق نہیں کرتے یا ان کی زندگی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اس بارے میں ماہرین ایک بات پر متفق ہیں اور وہ یہ کہ یوگا چونکہ ایک لطیف سائنس بھی ہے لہٰذا اس کے کچھ اصول و ضوابط بھی ہیں۔ جب تک ان کو اختیار نہیں کیا جائے گا محض یوگا کرنے سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور معاشرے پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔

بدرالاسلام کے مطابق یوگا سے امن و سکون کے حصول کی بنیادی شرط یہ ہے کہ یوگا کرنے والے کے خیالات پاکیزہ ہوں۔ وہ مثبت خیالات اختیار کرے اور منفی خیالات سے دور رہے۔

ایک ہندو مذہبی رہنما گوسوامی سوشیل جی مہاراج اس کی تائید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق خیالات کا صاف ستھرا ہونا یوگا کے لیے ضروری ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے خیالات پاکیزہ نہیں ہیں تو یوگا سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بھارتی معاشرہ منفی خیالات کی گرفت میں ہے۔ اس کے لیے وہ موجودہ سیاسی فضا کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ہمیں سوچنا ہوگا کہ سرکاری سطح پر یوگا کی تشہیر کے باوجود ملک میں امن و سکون کیوں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم آپسی اختلافات کو فراموش کرکے، بقائے باہمی کے نظریے پر چلتے ہوئے یوگا کو اختیار کرتے ہیں تو پھر ہمیں اس کے بہت اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔ ان کے خیال میں اس وقت عوام کے درمیان خوف کا عالم ہے۔ اسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام مذاہب کے احترام کی ضرورت ہے۔

ان کے خیال میں یوگا اسی وقت مؤثر ہوگا جب ہم اپنے خیالات کو شفاف بنائیں، سب کے ساتھ پیار محبت کا برتاو کریں اور باہمی دشمنی کے جذبات کو دل سے نکال کر یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھائیں۔ ورنہ یوگا کا عالمی دن منانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG