عالمی بینک کے عہدے داروں نے انکشاف کیا ہے کہ صرف ایک سال کے دوران 5 فی صد سے زائد اضافے کے باعث پاکستان میں غربت کی شرح 34.2 فی صد سے بڑھ کر 39.4 فی صد ہو گئی ہے۔
پاکستان میں یہ شرح بڑھنے سے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد لگ بھگ ایک کروڑ 25 لاکھ ہوگئی ہے۔ دوسری جانب ملک میں ایسے افراد کی تعداد ساڑھے نو کروڑ سے زائد ہوچکی ہے جن کی یومیہ آمدن 3.20 ڈالر یعنی تقریبا 950 روپےسے بھی کم ہے۔ یہ پاکستان کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی سے بھی زائد حصہ بنتا ہے۔
ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ پاکستان اس دوڑ میں کئی دیگر ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے اور غربت میں کمی کا عمل رک گیا ہے جب کہ ترقی کے فوائد غیر متناسب طور پر ایک چھوٹے سے طبقے کو حاصل ہورہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے البتہ معاشی ترقی نہ ہونے کے باعث روزگار کے مواقع محدود ہیں اور نوجوانوں میں بےچینی بڑھتی جارہی ہے۔ خاص طور پر نوجوان خواتین کے لیے ہر شعبے میں امکانات کو شدید خدشات درپیش ہیں۔
غربت کیوں بڑھ رہی ہے؟
اپنی رپورٹ میں عالمی بینک نے غربت میں اضافے کے جن بنیادی اسباب کی نشان دہی کی ہے ان میں صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی خدمات کی فراہمی سرِ فہرست ہے۔
اس کے علاوہ سماجی تحفظ کے ناکارہ نظام، بڑھتے ہوئے بے سمت اور غیر ضروری حکومتی اخراجات، غیر مساوی ٹیکس نظام، غیر پیداواری معیشت، کم پیداوار دینے والے زرعی سیکٹر،مہنگی توانائی اور اس کے باعث قرضوں کے بڑھتے بوجھ اور اشرافیہ کی گرفت میں کام کرنے والے غیر موثر پبلک سیکٹر جیسے عوامل کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں افرادی قوت کے بحران کو پاکستان کے لیے سب سے اہم مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق ملک میں افرادی قوت کی صلاحیت انتہائی کم ہے اور اسے پوری طرح استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ پاکستان کو درپیش بڑے اور غیر پائیدار مالی خسارے کو قرار دیا گیا ہے جب کہ غربت میں اضافے کی تیسری اہم وجہ خراب پالیسیوں کے باعث سرمایہ کاری کے فقدان اور برآمدات میں آنے والی کمی ہے۔
عالمی بینک کے مطابق 2022 کے تباہ کن سیلاب سمیت موسمیاتی تبدیلی نے بھی پاکستان کو بے حد متاثر کیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سرمایہ کاری کی کمی، ریکارڈ مہنگائی، روپے کی قدر میں تیزی سے کمی اور زرمبادلہ کے کم ذخائر بھی غربت میں اضافے کے اسباب میں شامل ہیں۔
ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ ملک میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح میں دس سال میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ شہروں میں رہنے والے 7.4 فی صد نوجوان لڑکے اور 10.4 فی صد خواتین بے روزگار ہیں۔
عوام کو صحت، تعلیم، صفائی ستھرائی جیسی بنیادی سہولتیں دست یاب نہیں اور انہیں غذائی کمی کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کے شہروں میں مقیم 47 فی صد گھرانوں میں گنجائش سے زائد لوگ رہنے پر مجبور ہیں۔ جب کہ ان سب حقائق کے ساتھ ملک میں حقیقی فی کس آمدن میں محض 1.7 فی صد اضافہ ہوا ہے جو جنوبی ایشیائی ممالک میں ہونے والے اوسط اضافے کے نصف سے بھی کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق 1980 کی دہائی میں پاکستان کی فی کس آمدنی جنوبی ایشیاٗ میں سب سے زیادہ تھی لیکن اب اس کا شمار خطے کی کم ترین آمدن والے ممالک میں ہوتا ہے۔
’اب باتوں سے کام نہیں چلے گا‘
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر افتخار احمد کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ اسلام آباد کے لیے پالیسی میں تبدیلی کے لیے واضح اور بروقت انتباہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ موجودہ سماجی، سیاسی، اقتصادی ماڈل فلاپ ہوتا نظر آرہا ہے اور یہ پاکستانی عوام کو بنیادی ضروریات تک پہنچانے میں ناکام ثابت ہورہا ے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ بدترین حکمرانی کے نتائج نے حالات اس قدر خراب کردیے ہیں کہ اب محض زبانی دعوؤں سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں۔ ان کے بقول، پاکستان کو اب اصلاحات اور بحران میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
افتخار احمد کے مطابق پاکستان کو افرادی قوت کی صلاحیتوں میں اضافے، معاشی استحکام کے لیے مالی خسارے میں کمی اور نجی شعبے کو مزید آگے لاکر مسابقت کو فروغ دینا ہوگا۔اس سلسلے میں حکومتی اداروں کو مضبوط کرنے کے ساتھ زراعت پر خصوصی توجہ بھی دینا ہوگی۔ جب کہ توانائی کے شعبے میں ایسی اصلاحات کرنا ہوں گی جنھیں کئی دہائیوں سے ٹالا جا رہا ہے۔
’آمدن بڑھائے بغیر غربت کم نہیں ہوسکتی‘
ایک اور ماہر اقتصادیات فرحان محمود کا کہنا تھا کہ ملک کا معاشی مستقبل فی الحال تاریک نظر آتا ہے کیونکہ معیشت مسلسل سکڑ رہی ہے اور اسے ٹھیک کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی حالات میں افراط زریعنی مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے قوت خرید میں کمی اور بے روزگاری میں بڑھے گی جس کے باعث غربت میں بھی اضافہ ہوگا۔
فرحان محمود کے مطابق اگر پاکستان واقعی ان مشکل حالات اور بڑھتی ہوئی غربت سے نکلنا چاہتا ہے تو حکومت کو ٹیکس دہندگان کی تعداد کو بڑھانا ہوگا۔ ان میں زراعت کے پیشے سے منسلک افراد، تاجر ، ریٹیلرز اور رئیل اسٹیٹ رکھنے والوں کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے۔