رسائی کے لنکس

ساڑھے چار ماہ سے لاپتا صحافی عمران ریاض خان گھر واپس آ گئے


ساڑھے چار ماہ سے لاپتا صحافی اور یوٹیوبر عمران ریاض خان خود گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔ عمران ریاض خان کے وکیل اور آئی جی پنجاب نے پیر کو ان کی گھر واپسی کی تصدیق کی ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق پنجاب کی پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) نے عمران ریاض خان کی واپسی کی تصدیق کی ہے۔

عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ عمران ریاض خان واپس آ گئے ہیں۔

عمران ریاض خان کی واپسی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ مشکلات اور کمزور عدلیہ کی وجہ سے ان کی واپسی میں بہت زیادہ وقت لگا۔

میاں علی اشفاق نے مزید کہا کہ نا قابلِ بیان حالات کے باوجود یہ بہترین دن دیکھا-

وکیل کا کہنا ہے کہ عمران ریاض کا وزن 22 کلو تک کم ہو چکا ہے اور وہ اس وقت صدمے کے بعد جیسی صورتِ حال سے گزر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل میاں علی اشفاق کا مزید کہنا تھا کہ عمران ریاض کی ذہنی صحت بحال ہو گی تو ہی قانونی کارروائی سے متعلق آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ عمران ریاض کی یادداشت ٹھیک ہے، ان کے گھر واپس آنے پر جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے ہیں۔ پہلے پورا گھر صدمے کی حالت میں تھا اور گھر میں ویرانی تھی لیکن عمران ریاض کی واپسی سے پورا گھر خوشی کے عالم میں ہے۔

جسمانی تشدد کے حوالے سے سوال پر میاں علی اشفاق نے کہا کہ اس بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے کیوں کہ ڈاکٹرز کی ٹیم عمران ریاض کی نگرانی کر رہی ہے اور ان کے مختلف ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں جن کی رپورٹس آنے کے بعد مزید تفصیل معلوم ہو گی۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر سیالکوٹ پولیس کے نام سے قائم ایک اکاؤنٹ پر بھی اسی طرح کا تصدیقی پیغام دیا گیا ہے۔

سیالکوٹ پولیس کے مطابق صحافی عمران ریاض خان صاحب بازیاب ہو چکے ہیں۔

بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر پہنچ چکے ہیں۔

عمران ریاض خان کی خود گھر واپس آ جانے پر سوشل میڈیا خوشی کا اظہار اور تبصرے کیے جا رہے ہیں۔

عمران ریاض خان رواں برس 11 مئی سے لاپتا تھے۔ ساڑھے چار ماہ قبل سیالکوٹ ایئر پورٹ سے ان کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ بیرون ملک روانہ ہونے کے لیے وہاں پہنچے تھے۔

عمران ریاض خان کو نقضِ امن کے خدشے کے پیشِ نظر پہلے سیالکوٹ کینٹ تھانہ اور پھر جیل منتقل کیا گیا تھا۔

بعدازاں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران ریاض خان کو تو رہا کر دیا گیا تھا تاہم وہ گھر نہیں پہنچے اور اس کے بعد سے لاپتا تھے۔ ملک کا کوئی بھی ادارہ یہ تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ عمران ریاض خان ان کی تحویل میں ہیں۔

عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض کے وکلا کا دعویٰ تھا کہ سیالکوٹ جیل سے 'نامعلوم' نقاب پوش افراد انہیں اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔

البتہ لاہور ہائی کورٹ میں پولیس کے افسران، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام اور خفیہ اداروں کے نمائندے عمران ریاض خان کے حوالے سے عدالت میں لاعلمی کا اظہار کرتی رہیں۔

عمران ریاض کو پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا حامی اور ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کا ناقد سمجھا جاتا ہے۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف اپریل 2022 میں قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری کے بعد سے ہی عمران ریاض خان سوشل میڈیا پر خاصے متحرک تھے اور مقتدر حلقوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔

عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض نے لاہور ہائی کورٹ میں ان کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کی تھی جس پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر حسین بھٹی نے کئی سماعتیں کیں۔

'عمران ریاض کی رہائی کسی بھی وقت ممکن ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:41 0:00

چیف جسٹس امیر حسین بھٹی نے پانچ دن قبل بدھ کو ہونے والے سماعت میں عمران ریاض خان کی بازیابی کے لیے پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل(آئی جی) ڈاکٹر عثمان انورکو آخری موقع دیا تھا۔

چیف جسٹس امیر حسین بھٹی نے کہا تھا کہ "پانچ ماہ گزر گئے۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ اب کارروائی شروع کر دینی چاہیے۔"

واضح رہے کہ اس کیس کی مزید سماعت کل یعنی منگل کو ہونی ہے۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) سمیت دیگر عالمی تنظیمیں بھی عمران ریاض خان کی بازیابی کے مطالبات کرتی رہی ہیں۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے بیان میں کہا تھا کہ اگر عمران ریاض خان کو کچھ ہوا تو 'آر ایس ایف' اس کا ذمے دار پاکستان کی حکومت کو ٹھہرائے گی۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم نے الزام لگایا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافی عمران ریاض خان کو پاکستان کی ملٹری انٹیلی جینس نے اغوا کیا ہے۔

پاکستان کے خفیہ ادارے ماضی میں اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ انسانی حقو ق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی عمران ریاض خان کی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ جب صحافی عمران ریاض خان لاپتا ہوئے تھے اس وقت ملک میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت قائم تھی۔ پی ڈی ایم اتحاد میں مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی جماعت تھی۔ اس کے رہنما اور اس وقت کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے وائس آف امریکہ کے ایک سوال کا جواب میں کہا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ عمران ریاض کہاں ہیں ؟

عمران ریاض کہاں ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:03 0:00

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران ریاض خان صحافی تھوڑی ہیں۔

اس وقت کی وفاقی وزیرِ اطلاعات اور مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم اورنگزیب نے بھی کہا تھا کہ عمران ریاض صحافی نہیں ہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن ہیں۔

ان کا دعویٰ تھا کہ کوئی ایک صحافی بھی ایسا نہیں جو ملک میں لا پتا ہو۔

واضح رہے کہ عمران ریاض خان حالیہ عرصے میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے بیانیے کی حمایت کرتے رہے ہیں جب کہ وہ ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے بڑے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔

گزشتہ برس بھی عمران ریاض خان کو ریاستی اداروں پر تنقید کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم اُنہیں بعدازاں عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG