رسائی کے لنکس

گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی آخر وجہ کیا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی، عدم برداشت اور سوشل میڈیا کے ذریعے فرقہ واریت میں اضافے کے حالیہ رجحانات نے نسبتاً پرامن سمجھے جانے والے علاقے گلگت بلتستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

کئی ہفتوں سے جاری کشیدگی میں فی الحال امن معاہدے کے بعد کمی تو آئی ہے اور انٹرنیٹ سروس بھی بحال ہو گئی ہے۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں فرقہ واریت جنگل کی آگ کی طرح پھیل سکتی ہے اور حال ہی میں ہونے والی قانون سازی نے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

گلگت بلتستان میں حالیہ کشیدگی کا آغاز اگست 2023 کو اس وقت ہوا جب انجمن امامیہ گلگت بلتستان کے صدر سید باقر الحسینی نے اسکردو میں مبینہ طور پر ایک اشتعال انگیز تقریر کی۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس تقریر پر گلگت بلتستان کے سنی مکتبِ فکر کی جانب سے سخت ردِعمل آیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مذکورہ رہنما کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

گلگت میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت ہے اور علاقے میں حالیہ کشیدگی کے دوران 13 پولیس اہلکاروں کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں کارروائی بھی کی گئی ہے۔

گلگت بلتستان کے وزیرِ داخلہ شمس لون کا دعویٰ ہے کہ تمام تر خدشات کے باوجود گلگت بلتستان حکومت نے امن وامان کی صورتِ حال کو کنٹرول میں رکھا۔

وزیرِ داخلہ گلگت بلتستان نے بتایا کہ ”13 ایسے اہلکار ہیں جن کو سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت کے حوالے سے الزامات کے بعد معطل کر دیا گیا ہے۔ اس کی باقاعدہ تفتیش کی جا رہی ہے اور اگر اس تفتیش سے کوئی نتیجہ نکلتا ہے تو میڈیا کو ضرور بتایا جائے گا۔"

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے مصنف اور محقق عزیز علی داد کا ماننا ہے کہ انجمن امامیہ گلگت بلتستان کے صدر سید باقر الحسینی کی تقریر گلگت بلتستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عزیز علی داد نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے دور نے چیزوں کو بدل دیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ "گلگت بلتستان میں یہ ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور سنی علاقوں میں ظاہر ہے اس کا ردِعمل آنا فطری تھا۔ دراصل حال ہی میں جو کریمنل لا ترمیمی ایکٹ 2023 منظور ہوا ہے اس سے گلگت بلتستان میں ان رحجانات میں اضافے کا خدشہ موجود تھا اور رہے گا۔"

گلگت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے کے لیے پہلی بار اس نئے قانون کے تحت سید باقر الحسینی کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔

ہوا کچھ یوں کہ 23 اگست 2023 کو اسکردو کے تھانہ سٹی میں تنظیم اہلسنت و الجماعت کی جانب سے کریمنل لا ترمیمی ایکٹ 2023 کی دفعہ 298 اے کے تحت اندراجِ مقدمہ کی درخواست دائر کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا کہ "انجمن امامیہ بلتستان کے صدر سید باقر الحسینی نے اسکردو میں صحابہ کرام کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔"

اس دوران کشیدگی کے باعث گلگت بلتستان میں دفعہ 144 نافذ رہی اور انٹرنیٹ سروسز 18 روز تک بندش کے بعد 19 ستمبر کو بحال ہوئی۔

وزیرِ داخلہ شمس لون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت نے پرامن طریقے سے اس مسئلے کا حل نکالا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کئی افراد کے خلاف مقدمات درج ہوئے کیوں کہ ہم کبھی بھی اس خطے میں مذہبی منافرت پھیلانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

شمس لون کے مطابق اس علاقے کی فرقہ واریت پر منبی پرتشدد واقعات کی تاریـخ پرانی ہے لیکن اب جب کہ یہ علاقے سی پیک کی گزرگاہ ہے تو حکومت کے لیے یہاں امن برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔

کریمنل ترمیمی بل اگست 2023ء کو ہی سینیٹ سے پاس ہوا۔ اس بل کے تحت قانون کی دفعہ 298 اے میں ترمیم کی گئی ہے۔

پیغمبرِ اسلام کے خاندان بشمول اُن کی ازواج، صحابہ کرام اور پہلے چار خلفاء جنہیں اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان شخصیات کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے تین سال سے دس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

یہ بل قانون بننے کے بعد اب کریمنل ترمیمی ایکٹ 2023ء کہلاتا ہے۔

گلگت بلتستان میں فرقہ پرستی کے واقعات کیوں پیش آتے ہیں؟

جغرافیائی اعتبار سے گلگت بلتستان کا شمار اس خطے کے اہم ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔

ایک جانب اس کی سرحد چین کے ساتھ لگتی ہے تو دوسری جانب اس کی سرحد بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے ملتی ہے۔

گلگت بلتستان کی سرحد افغانستان کے ضلع واخان کے ساتھ بھی لگتی ہے جیسے "واخان کوریڈور" کہا جاتا ہے اور یہاں سے تاجکستان بھی بہت قریب ہے۔

یہاں مذہبی لحاظ سے چار مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ ان میں شیعہ، سنی، اسماعیلی اور صوفی مسلک سے تعلق رکھنے والے نور بخشیہ شامل ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد اہل تشیعہ افراد کی ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ خطہ شیعہ سنی تنازعات میں گھرا نظر آتا ہے۔

عزیز علی داد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ معاملہ سن ستر کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب گلگت بلتستان کو قراقرم ہائی وے کے ذریعے پاکستان کے باقی علاقوں سے جوڑا گیا۔

گلگت بلتستان پاکستان میں ایک شیعہ اکثریتی خطہ ہے۔ اس سے قبل یہاں کی اپنی ثقافت بہت مضبوط تھی اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والوں میں باقاعدہ رشتہ داریاں تھیں۔

لیکن جب ایران میں انقلاب آیا اور افغانستان میں جنگ کا آغاز ہوا تو ہر طرف سے مذہبی انتہا پسندی نے گلگت بلتستان میں راستے بنا لیے۔

سن 2018 کی یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی رپورٹ کے مطابق فرقہ پرستی پر مبنی تصادم کا نمایاں واقع 1972 کو سامنے آیا جب یومِ عاشور کے جلوس کے دوران بدمزگی ہوئی۔

اس کے بعد پہلا بڑا واقعہ 1975 کو پیش آیا جب محرم کے جلوس پر ایک سنی مسجد کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔

یہ تصادم اس حد تک بڑھا کہ اہل تشیعہ مکتبِ فکر پر کفر کے الزامات لگے اور گلگت شہر سے باہر سے سنی مکتبِ فکر کے لشکر گلگت پر چڑھائی کے لیے تشکیل دیے گئے۔ تاہم گلگت اسکاؤٹس کی جانب سے بروقت کارروائی کے باعث بڑے تصادم کا خطرہ ٹل گیا۔

چاند کا خونی تنازع

'یو ایس آئی پی' کی رپورٹ کے مطابق 1983 میں ایک بار پھر شیعہ سنی تنازع نے اس وقت جنم لیا جب رمضان کے بعد اہل تشیع عیدالفطر کو سنی مکتبِ فکر سے پہلے منا رہے تھے۔

سنی مکتبِ فکر کا کہنا تھا کہ اہل تشیعہ رمضان میں کھانا کھا رہے ہیں جس کی وجہ سے فساد ہوا اور دو لوگ مارے گئے۔

ایسا نہیں کہ چاند کا تنازع ملک کے باقی حصوں میں سامنے نہیں آتا۔ لیکن گلگت بلتستان میں یہ تنازع خونی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ 1988 وہ سال تھا جس کو آج بھی "گلگت قتل عام" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جس کی وجہ یہی چاند کا تنازغ تھا۔

سن 1988 میں کیا ہوا تھا؟

سن 1988 وہ دور تھا جب روسی افواج افغانستان میں شکست کھا چکی تھیں۔ روس کے خلاف برسرِ پیکار 'مجاہدین' فتح یاب ہو چکے تھے۔ اب ان کی نظریں اپنی نظریاتی سرحدیں پھیلانے پر لگ چکی تھیں۔

افغانستان میں مجاہدین عقیدے کے بنیاد پر خود ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو چکے تھے۔

مجاہدین کی سربراہی شیخ اسامہ بن لادن کر رہے تھے اور جہاد میں اکثریت انہی عرب باشندوں کی تھی اس لیے ان کی نظریں گلگت بلتستان پر تھیں۔

یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہ شیعہ اکثریتی خطہ ان کی نظریاتی ریاست کے راستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

اس حوالے سے پوری تفصیل کیتھرین سکاٹ کلارک اور ایڈرین لیوی کی معروف کتاب 'ڈیسیپشن: پاکستان، دی یونائیٹڈ اسٹیٹس اینڈ دی سیکرٹ ٹریڈ ان نیوکلیئر ویپنز' میں بتائی گئی ہے۔

کتاب کے باب نمبر دس میں مصنفین نے دعویٰ کیا ہے کہ یہاں بن لادن کی ملیشیا نے ایک وحشیانہ قتلِ عام کیا، 300 سے زیادہ افراد مارے گئے اور جب لڑائی تھم گئی تو ایک تنظیم (جو اب کالعدم ہے) کے لیے ایک دفتر کھولا جس سے پاکستان بھر میں اس تنظیم کو اپنا اثر و رسوخ پھیلانے میں مدد ملی۔

لیکن ایسا کیا ہوا تھا کہ گلگت بلتستان میں اس بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے؟

اس حوالے سے گلگت بلتستان کے مقامی صحافی فہیم اختر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دراصل لڑائی کی بنیاد وہی تھی جو 1983ء میں رکھی گئی تھی۔

اُن کے بقول تنازع چاند کا تھا۔ اسکردو میں 17 مئی 1988 میں اہل تشیعہ عید الفطر منا رہے تھے جو سنی مکتبِ فکر کے نزدیک رمضان کا آخری دن تھا۔

کچھ نوجوان سگریٹ نوشی کر رہے تھے جس پر سنی نوجوان مشتعل ہوئے بس پھر کیا تھا ہزاروں کی تعداد میں سنی 'مجاہدین' نے افغانستان، خیبرپختونخوا اور گلگت کی سنی آبادیوں داریل اور تانگیر سے گلگت شہر پر دھاوا بولا۔

یہ فسادات دو روز مسلسل جاری رہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس لشکر کشی کے نتیجے میں چار سو سے زید شہری مارے گئے جن میں اکثریت اہل تشیع کی تھی۔

صحافی فہیم اختر کا ماننا ہے کہ آج بھی ان واقعات کے اثرات ایک خوف کی شکل میں گلگت میں نظر آتے ہیں اور جب بھی اس طرح کا کوئی معمولی واقعہ بھی ہوتا ہے تو خصوصاً گلگت کے شہری سکتے میں آ جاتے ہیں۔

متنازع درسی کتب کی کہانی

سن 1999 میں وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کے لیے درسی کتب کے نصاب کی منظوری دے دی۔ اس پر ا تشیعہ کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے کہ اردو اور اسلامیات کے کورس میں ان کے نظریات و عقائد کا خیال نہیں رکھا گیا۔

اس حوالے سے پورے گلگت بلتستان میں ایک تحریک شروع کی گئی جس کے سرخیل گلگت امامیہ مسجد کے امام آغا ضیاء الدین رضوی تھے۔

ان کی یہ تحریک کئی برس جاری رہی اس دوران ان کی وفاقی وزارتِ تعلیم اور گلگت انتظامیہ کے ساتھ بات چیت بھی چلتی رہی۔ تاہم 15 اگست 2003 کو اسکردو میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔

پرتشدد مظاہرے ہوئے جس کے بعد حکومت کو یکم ستمبر 2003 تک کی ڈیڈ لائن دی گئی کہ نئے نصاب کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

ستمبر میں ہی سنی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے مدارس کے طلبہ سینکڑوں کی تعداد میں نصاب کے حق میں نکلے۔

یہ سلسلہ 2005ء تک چلتا رہا جب تحریک کے محرک آغا ضیاء الدین رضوی کو 13 جنوری 2005 کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔

اس کے بعد اس وادی میں ٹارگٹ کلنگ نے قدم جما لیے۔ اس قتل کے بعد حکومت پر دباؤ اتنا بڑھ گیا کہ انہیں فیصلہ واپس لینا پڑا۔

درسی کتب کے حوالے سے شروع ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے یہاں تک کہ 20اپریل 2009 کو مبینہ طور پر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر سید اسد زیدی کو قتل کر دیا گیا۔

اس کے بعد 28 فروری 2012 کو زائرین کی ایک بس کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ بس ایران سے واپس گلگت جا رہی تھی جس میں 18 شہریوں کو قتل کیا گیا۔ تین اپریل 2012 کو چلاس میں پھر فرقہ واریت کی بنا پر 20 شہری مارے گئے۔

امن معاہدے کس حد تک کامیاب رہے؟

پاکستان میں تنازغات سے گھرے دیگر علاقوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی اہل تشیع اور سنی مکتبِ فکر کے مابین امن معاہدے ہو چکے ہیں۔

سن 2005 میں تنظیم اہل سنت و الجماعت اور مرکزی انجمن امامیہ کے درمیان باقاعدہ معاہدہ ہوا جس میں ایک دوسرے پر کفر کے فتووں سے پرہیز پر بھی اتفاق کیا گیا۔

لیکن اس کے باوجود واقعات ہوئے تو 2012 میں گلگت کی قانون ساز اسمبلی نے باقاعدہ ایک "ضابطہ اخلاق" جاری کیا جس میں فریقین کے درمیان نفرت پر مبنی مواد کی تشہیر پر پابندی لگا دی گئی۔

دو برس قبل جب افغانستان میں طالبان نے اقتدار سنبھالا تو 23 اگست 2023 کو گلگت بلتستان کے ضلع استور میں اہل تشیعہ اور اہل سنت میں 17 نکات پر مبنی ایک مفصل تحریری معاہدہ ہوا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کا مزاج اور سماجی ڈھانچہ ملک کے دیگر حصوں سے مختلف ہے۔ دیکھا جائے تو یہاں سنی اقلیت میں ہیں۔

صحافی فہیم اختر کے مطابق "معاہدوں کے باوجود اس بار صورتِ حال خاصی کشیدہ رہی۔ وہ تو سیکیورٹی فورسز اور انتظامیہ نے مل کر صورتِ حال سنبھال لی ورنہ ایک وائرل ویڈیو کی وجہ سے بے امنی کی آگ دوبارہ بھڑک سکتی تھی۔"

کیا کریمنل ترمیمی ایکٹ 2023 سے کوئی بہتری آ جائے گی؟

محقق عزیز علی داد کے مطابق اس سے معاملات مزید بگڑیں گے، ہم دراصل مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچنا چاہتے۔ گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کے حوالے سے میں نے بہت کچھ لکھا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس نئے قانون سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔"

حالیہ کشیدگی کے دوران پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی خود ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا گلگت بلتستان میں فرقہ واریت اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ اب سرکاری ملازمین بھی اس کی زد میں ہیں؟

  • 16x9 Image

    سید فخر کاکاخیل

    سید فخرکاکاخیل دی خراسان ڈائری اردو کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ مختلف مقامی، ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے  لیے پشتو، اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ انتظامی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ زیادہ تر وہ پاک افغان اور وسطی ایشیا میں جاری انتہا پسندی اور جنگ کے موضوعات کے علاوہ تجارتی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب "جنگ نامہ: گلگت سے گوادر اور طالبان سے داعش تک گریٹ گیم کی کہانی" کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

XS
SM
MD
LG