بلوچستان میں سیلاب سے 136 اموات؛ ’ حکومت سے امداد نہیں کفن کا مطالبہ کر رہے ہیں‘

فائل فوٹو

بلوچستان میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران مون سون بارشوں اور سیلاب سے اب تک 136 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ صوبے میں سب سے زیادہ تباہی لسبیلہ میں ہوئی ہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ حالیہ سیلاب سے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو فی کس 10 لاکھ روپے 24 گھنٹوں میں ادا کریں جب کہ سیلاب سے مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہونے والے مکانوں کا معاوضہ بڑھا کر پانچ لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔

لسبیلہ کے علاقے لاکھڑا میں سیلاب سے متاثرہ افراد اب بھی بے یار و مدد گار کھلے آسمان کے تلے موجود ہیں اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔اسی علاقے کے ایک متاثرہ شخص محمد عالم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ بارشوں سے ان کا پورا علاقہ متاثر ہوا ہے، لوگوں کے گھر اور جھونپڑیاں تباہی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔

محمد عالم کے بقول ’’ہم حکومت سے امداد نہیں کفن کا مطالبہ کررہے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ درجنوں لوگ سیلاب میں بہہ کر ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان کو کفن تک میسر نہیں ہے، لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کے سامنے بیٹھ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کے پاس نہ تو رہنے کےلیے گھر ہے اور نہ ہی کھانا موجود ہے۔ علاقے میں خوراک کی شدید قلت ہے، مگر ان کی کوئی نہیں سن رہا ہے۔

پی ڈی ایم اے بلوچستان ایمرجنسی سیل کے انچارج محمد یونس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مون سون کی حالیہ بارشوں کے باعث بلوچستان کے ضلع کوئٹہ، پشین، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبد اللہ، سبی، واشک، چمن، آواران، نوشکی، زیارت، شیرانی، ہرنائی، جعفرآباد، ژوب، ڈیرہ بگٹی، خضدار،مستونگ، پنجگور، کوہلو اور لسبیلہ میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

ضلع نوشکی میں بارشوں اور سیلاب سے جہاں لوگوں کی کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے، وہیں 700 کے قریب گھر بھی تباہ ہوئے ہیں۔

نوشکی کے ایک رہائشی عبدالرحیم سرپرہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان محلے میں تمام گھر ہی سیلاب کی نظر ہوگئے ہیں۔ لوگوں کا قیمتی سامان پانی میں بہہ گیا ہے۔ زراعت کو بھی نقصان پہنچا ہے حکومت کو چاہیے کہ یہاں کے لوگوں کی مدد کرے۔

انہوں نے کہا کہ نوشکی کے علاقے کشنگی خیصار اور سنگبر میں شدید بارش سے ٹماٹر اور پیاز کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جب کہ لوگوں کے مال مویشی بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔

پی ڈی ایم اے بلوچستان کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صوبے کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہے جب کہ متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق حالیہ بارشوں سے 6000 سے زائد مکان مکمل تباہ ہوئے یا ان کو جزوی نقصان پہنچا۔

حالیہ سیلابی صورتِ حال کے باعث صوبہ بھر میں 565 کلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا۔ نو مقامات پر پل ٹوٹ گئے۔ سیکڑوں مویشی ہلاک ہوئے جب کہ ایک لاکھ 97 ہزار ایکٹر پر زرعی اراضی کو نقصان پہنچا۔

حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اب تک سیلاب سے 50 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں، جن میں سے 18 ہزار سے زائد افراد کو ریسکیو کیا گیا۔

بلوچستان اسمبلی کے رکن اور سابق وزیرِ خزانہ ظہور بلیدی نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے وسیع تر اثرات سے نمٹنے اور متاثرین کے نقصانات کے ازالے کے لیے 100 ارب روپے کی امداد دی جائے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے متاثرہ علاقوں قلعہ سیف اللہ اور چمن کا دورہ کیا۔شہباز شریف نے این ڈی ایم اے کو بارش اور سیلاب میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو معاوضہ کی رقم 24 گھنٹے میں ادا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

سرکاری بیان کے مطابق وزیرِ اعظم نے جزوی یا مکمل تباہ ہونے والے مکانات کے معاوضہ کو بھی بڑھا کر پانچ لاکھ روپے کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پیر کو کوئٹہ آمد پر نقصانات اور امدادی سرگرمیوں پر بریفنگ سے خطاب میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ چیلنج بڑا ہے، مل کر مقابلہ کریں گے۔

بلوچستان کے چیف سیکریٹری عبدا لعزیز عقیلی اور چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز نے وزیر اعظم کو بریفنگ میں بتایا کہ جون کی 13 تاریخ کو بارش کا سلسلہ شروع ہوا۔ بلوچستان میں ماضی کے مقابلے میں حالیہ اسپیل میں 500 فی صد زیادہ بارش ہوئی جس سے بارش کا 30 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔

وزیرِ اعظم کو بتایا گیا تھا کہ اب تک بلوچستان میں 136 اموات ہوئی ہیں۔ دو لاکھ ایکڑ زرعی اراضی زیر آب آگئی ہے جب کہ کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو نقصان پہنچاتھا البتہ اس کو بڑی حد تک بحال کر دیا گیا ہے۔