شہریت قانون اور این آر سی کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں: مودی

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی جلسے سے خطاب کر رہے ہیں

وزیر اعظم نریندر مودی نے شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے سلسلے میں حکومت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا بھارت کے مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اتوار کو نئی دہلی کے رام لیلا میدان میں بھارتیہ جنتا پارٹی(بے جے پی) کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے الزام عائد کیا کہ کانگریس اور حزب اختلاف کی جماعتیں اس بارے میں افواہیں پھیلا رہی ہیں۔

شہریت قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن آف انڈیا (این آر سی) کے بارے میں نریندر مودی نے کہا کہ این آر سی کے بارے میں جھوٹ بولا جا رہا ہے اور اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ ابھی نہ تو پارلیمنٹ میں آیا ہے اور نہ ہی کابینہ میں پیش کیا گیا ہے جبکہ اس حوالے سے کسی قسم کے ضابطے مقرر نہیں کیے گئے۔

وزیر اعظم نے شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کی مخالفت کرنے پر کانگریس اور دوسروں کو شہری اور تعلیم یافتہ نکسلی قرار دیا۔

بھارت کے وزیر اعظم نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں ایک بار این آر سی اور سی اے اے کو پڑھ لیں۔

انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ میں آپ لوگوں کی تعلیم کا احترام کرتا ہوں۔

نریندر مودی کے بقول بھارتی مسلمانوں کے اجداد اس ملک کے سپوت رہے ہیں، ان کو این آر سی اور سی اے اے سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نہ تو بھارت میں کوئی حراستی مرکز ہے اور نہ ہی کسی مسلمان کو اس میں ڈالا جائے گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارت میں 'شہریت قانون' کے خلاف انڈیا گیٹ پر احتجاج

بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سی اے اے اور این آر سی سے مسلمانوں اور دیگر شہریوں کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سی اے اے کا کسی بھی ہندوستانی سے خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ بات پارلیمنٹ میں بھی کہی گئی ہے۔

ان کے مطابق 2014 میں جب میں برسر اقتدار آیا اس کے بعد سے حکومت نے این آر سی پر کوئی گفتگو نہیں کی۔ ہم نے آسام میں این آر سی سپریم کورٹ کے حکم پر کیا تھا۔

احتجاج میں ہلاکتوں میں اضافہ

ادھر اتر پردیش میں سی اے اے کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں ہلاک شدگان کی تعداد 15 تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں بنارس کا ایک آٹھ سالہ بچہ بھی شامل ہے۔

سب سے زیادہ میرٹھ میں چار افراد ہلاک ہوئے جبکہ بجنور، سنبھل، فیروز آباد اور کانپور میں دو دو افراد کی ہلاکت ہوئی۔ رامپور، لکھنو اور بنارس میں ایک ایک شخص کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی۔

متنازع شہریت بِل: دہلی کی جامع مسجد مظاہروں کا گڑھ بن گئی

اتر پردیش کی پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس کی جانب سے کہیں بھی گولی نہیں چلائی گئی اور اگر کوئی گولی لگنے سے ہلاک ہوا ہے تو گولی مظاہرین نے چلائی ہو گی۔

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

آئین بچاؤ ریلی

جے پور میں راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے اتوار کے روز آئین بچاو ریلی کا اہتمام کیا جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

نئی دہلی میں متنازع شہریت بل کے خلاف مظاہرے جاری

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں آج بھی بڑی تعداد میں طلبا و طالبات اور مقامی باشندوں نے پہنچ کر شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کیا۔ وہاں پندرہ دسمبر سے روزانہ مظاہرہ ہو رہا ہے۔

کانگریس کی رہنما پرینکا گاندھی نے اتوار کے روز بجنور کا دورہ کیا جہاں مظاہرے کے دوران دو لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ نئے قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے نقل مکانی کر کے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، بدھ مت، جین ازم، پارسی اور مسیحی مذاہب کے ان افراد کو شہریت دی جائے گی جو 2014 سے قبل بھارت آئے ہوں یا وہ چھ برس تک بھارت میں مقیم رہے ہوں۔

بھارت کے نئے قانون کے تحت تین مسلم اکثریتی ممالک سے نقل مکانی کرنے والے غیر مسلم افراد کو ترجیحی دی گئی ہے۔

بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میں آباد شہریوں میں یہ خوف پیدا ہو گیا ہے کہ بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے آنے والے ہندو افراد کو نئے قانون کے تحت شہریت مل جائے گی۔

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے یہ بل 2016 میں بھی لوک سبھا (ایوانِ زیریں) میں پیش کیا تھا۔ تاہم، اس وقت بل راجیہ سبھا (ایوانِ بالا) میں منظور نہیں ہو سکا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

'بھارت کا شہریت قانون بنیادی حقوق کے خلاف ہے'

بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں جب کہ شمالی مشرقی علاقوں میں بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں مسلمان ریاست آسام میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔

شہریت ترمیمی قانون میں مسلمانوں کا ذکر نہ ہونے پر حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمانوں کو اس خطے میں رہتے ہوئے دہائیاں ہو گئی ہیں۔ تاہم، ان کو شہریت نہیں دی گئی بلکہ نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزن آف انڈیا (این آر سی) کے تحت انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا جا رہا ہے۔

آسام میں متنازع شہریت ترمیمی بل کے خلاف مظاہرے

رواں سال اگست میں بھی یہ تنازع سامنے آیا تھا کہ جب این آر سی کا اجرا ہوا تو اس میں 20 لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، یعنی یہ افراد بھارت کے شہری تسلیم نہیں کیے گئے تھے۔ ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ان میں کچھ ہندو بھی شامل تھے۔

بھارت کی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ وہ مسلمان جو اپنے خاندان کے ساتھ بنگلہ دیش سے آئے تھے، اُنہیں بھارت میں رہنے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے۔

واضح رہے کہ لوک سبھا (ایوان زیریں) میں ​وزیرِ داخلہ امت شاہ نے متنازع شہریت ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا تھا جس پر تقریباً 12 گھنٹے تک بحث ہوئی۔

بھارت کی لوک سبھا میں بل کے حق میں 311 اور مخالفت میں 80 ارکان ووٹ دیا جب کہ ایوان بالا میں یہ بل 105 ووٹوں کے مقابلے میں 125 ووٹوں سے منظور ہوا تھا۔