غزہ کی پٹی کے علاقے میں اسرائیل کے کسی وقفے کے بغیر مسلسل حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے، فلسطینیوں نے پورےمغربی کنارے اور توسیع شدہ مشرقی یروشلم میں پیر کے روز عام ہڑتال کی، جس دوران دوکانیں، اسکول اور سرکاری دفاتر بند رہے۔
غزہ کی جنگ میں جو وہاں اب تک ہونے والی سب سے زیادہ خونریز جنگ ہے، ہلاک ہونے والوں کی جو تازہ ترین تعداد فراہم کی گئی ہے، اسکے مطابق علاقے میں اٹھارہ ہزار دو سو سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں ، جن میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی، جبکہ ایک سو چار اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
سرگرم کارکنوں نے محصور علاقے کے ساتھ یکجہتی کے لئے ہڑتال کی کال دی تھی۔ جس میں کاروبار، سرکاری ملازم اور تعلیم کا شعبہ شامل تھے۔
رملہ میں فلسطینی دھڑوں کے درمیان رابطوں کا کام کرنے والے اعصام ابو بکر کے مطابق بہت سے فلسطینیوں نے اس میں حصہ لیا اور مغربی کنارے کے علاقے میں جلسے جلوس ہوئے۔
انہوں نے احتجاج کو اس عالمی کوشش کا حصہ قرار دیا جس کا مقصد جنگ بند کرنے کے لئے اسرائیل پر دباؤ ڈالنا اور اردن اور لبنان کے بعض علاقوں پر ہونے والے حملوں کی جانب توجہ دلانا ہے۔
لبنان میں حکومت کی جانب سے غزہ اور جنوبی علاقوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لئے ملک بھر میں ہڑتال کے فیصلے کے بعد عوامی ادارے،بینک، اسکول اور جامعات بند رہیں۔ خیال رہے کہ لبنان کے جنوبی علاقوں میں فائرنگ کے تبادلے میں، جن میں سے بیشتر اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ہوتے ہیں، شدت آتی جا رہی ہے۔
یہ ہڑتال استنبول کے ایسن یو رٹ ڈسٹرکٹ میں بھی ہوئی جہاں بہت سے کاروباروں کے مالک فلسطینی علاقوں، شام ، یمن اور ایران سے تعلق رکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر تصویروں میں سنسان سڑکیں اور فلسطینی پرچم لہراتے نظر آتے ہیں۔
رملہ میں ابوبکر نے کہا کہ آج کی یہ ہڑتال صرف غزہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ یہ امریکہ کے بھی خلاف ہے جس نے سیکیورٹی کونسل میں عارضی جنگ بندی کے خلاف اپنی ویٹو پاور استعمال کی۔ وہ جمعے کے روز سلامتی کونسل میں امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کی قرارداد مسترد کئے جانے کا حوالہ دے رہے تھے۔
SEE ALSO: امریکی ویٹو پر ردعمل: غزہ میں 'خون ریزی' کا ذمہ دار امریکہ ہے، محمود عباسرات میں اسرائیل کی جانب سے مزید ہوائی حملوں میں سب سے بڑے جنوبی شہر خان یونس کو ہدف بنایا گیا۔ جبکہ مرکز اور اس علاقے کے شمال میں مہلک لڑائی اور بمباری کی اطلاعات ہیں۔
ادھر حماس نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسکے مطالبے کے مطابق مزید فلسطینی قیدیوں کو نہ چھوڑا گیا تو بقیہ ایک سو سینتیس یرغمال جوغزہ میں ہیں اس جنگ میں نہیں بچ پائیں گے۔
خیال رہے کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے سے یہ جنگ شروع ہوئی تھی جس میں جنوبی اسرائیل میں بارہ سو لوگ مارے گئے تھے۔
SEE ALSO: اسرائیل کا غزہ میں حماس کے سات ہزار جنگجو ہلاک کرنے کا دعویٰ، خان یونس میں جھڑپیںرملہ میں ایک ریلی میں مظاہرین نے غزہ میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے ناموں کی ایک طویل فہرست لہرائی۔پورے پورے خاندان اپنے بچوں کو لے کر احتجاج کے لئے نکل آئے۔
ایک بزرگ شخص نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم بس یہ ہی کر سکتے ہیں کہ اس میں حصہ لیں۔ ہمارے پاس اور کچھ نہیں ہے۔
اے ایف پی کے فوٹو گرافر نےمغربی کنارے کے شہر نابلوس اور الخلیل میں بھی کام بند دیکھا جہاں ایک اور ریلی ہوئی۔
مشرقی یروشلم کے پرانے شہر میں بہت سی دوکانیں بند رہیں۔
کچھ دوکان داروں کا جنہوں نے دوکانیں کھلی رکھیں، کہنا تھا کہ انکے پاس ایسا کرنے کا مضبوط جواز ہے۔
SEE ALSO: غزہ کی صورتِ حال پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب، لڑائی بدستور جاریباسٹھ سالہ پھول فروش راجہ سلامہ اپنے ایک عزیز کی تدفین کے لئے سفید گلابوں کی چادر تیار کرنے لئے دوکان پر آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ کام پر صرف اس لئے آئے کہ تدفین آج ہی تھی۔ جب کام ختم ہو جائے گا تو میں دوکان بند کردوں گا۔
بعض دوسرے کارو بار کے لئے پریشان تھے۔اس دوکاندار نے اپنا نام نہیں بتایا اور کہا کہ وہ پرانے شہر میں اپنی دوکان کھولنے پر شرمندہ ہیں۔
اور انہوں نے کہا کہ انہیں ہڑتال کا احترام کرنا چاہئیے۔ لیکن میرے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ میرے گھر پر ایک سالہ بچہ ہے اور میں جنگ کے آغاز سے کام نہیں کر سکا ہوں اور یہ ایک مکروہ سچ ہے۔
یہ رپورٹ اے ایف پی سے لی گئی ہے۔