اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین کی پاکستان میں سربراہ ایلس شیکلفرڈ کہتی ہیں کہ صحت اور تعلیم دو بنیادی شعبے جنہیں بہتر کئے بغیر خواتین کو با اختیار بنانے کے ہدف کا حصول مشکل ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار اس وقت بھی خطے کے ان ملکوں میں ہوتا جہاں زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ مزید برآں ایلس کہتی ہیں کہ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کے مواقع اور تعلیم مکمل کرنے کی شرح بھی کم ہے۔
’’خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے نہ صرف حکومتی سطح پر کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے بلکہ معاشرتی رویوں اور روایات میں تبدیلی بھی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے ناگزیز ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کی عہدیدار ایلس نے توقع ظاہر کی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت خواتین کی فلاح و بہبود کے محکمے کی صوبوں کو منتقلی سے علاقائی سطح پر موثر منصوبہ بندی کی جا سکے گی۔ ان کے بقول صوبوں کے پاس عورتوں کی فلاح و بہبود کے لیے مالی وسائل موجود ہیں البتہ انہیں اس سلسلے میں اپنی ترجیحات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
خواتین کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے سرکاری کمیشن کی سربراہ انیس ہارون بھی پر امُید ہیں کہ خواتین کی فلاح و بہبود کی وزارت کی صوبوں کو منتقلی سے مجموعی صورتحال بہتری کی طرف جائے گی۔
’’کچھ سال تو لگیں گے اس سسٹم کو اور صوبوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں بشرطیکہ انہیں فنڈز پورے دئیے جائیں اور ان کی استعداد کار بہتر بنائی جائے۔ میرے خیال میں آئندہ دس سالوں میں ہم بہتر نتائج دیکھیں گے۔ ‘‘
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 260 عورتیں زچگی کے دوران مر جاتی ہے۔ جبکہ ملک کی صرف 24 فیصد لڑکیوں کو پرائمری جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہیں۔