پاکستان کی آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں مقیم ہے۔ ان علاقوں میں جہاں پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب جیسی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے وہیں صحت کے مراکز کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
پسماندہ علاقوں میں سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث مریضوں کی بڑی تعداد علاج کے لیے شہروں کا رخ کرتی ہے اور شہروں میں موجود سرکاری اسپتال اپنی استعداد سے دوگنی تعداد میں مریضوں کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔
وفاقی دارالحکومت کے بڑے سرکاری اسپتال ’پمز‘ میں خواتین اور بچوں کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر بتول مظہر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سرکاری اسپتال وہ واحد ذریعہ ہیں جو لوگوں کو مفت اور سستا علاج فراہم کر رہے ہیں لیکن ان اسپتالوں میں فنڈز کی کمی کے باعث مشین اور آلات خراب پڑے ہیں۔
’’ٹانکے ہیں دوائیاں ہیں ٹیکے ہیں جب مریض اسپتال میں آتا ہے تو وہ سب مانگتا ہے لیکن ہمارے پاس ہے ہی نہیں بجٹ ہی نہیں ہے۔ ساری مشینیں ہیں لیکن ان میں سے آدھی ہی کارآمد ہیں۔ ان کی مرمت کے یا انہیں تبدیل کرنے کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں‘‘۔
انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ سرکاری اسپتالوں میں موجود محدود سہولتوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مریضوں کو طویل انتظار اور تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر بتول نے کہا کہ دیہاتوں کی سطح پر صحت عامہ کا بنیادی نظام بہتر بنا کر ہی عوام کو معیاری سہولتیں کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے ۔’’آپ نے ہیلتھ سسٹم صحیح کرنا ہے سوشل سیکورٹی سسٹم بہتر کرنا ہے سرکاری اسپتالوں میں سہولتیں فراہم کرنی ہیں پرائیوٹ اسپتالوں کو سستا کرنا ہے تاکہ عام آدمی کی بھی وہاں تک رسائی ہو سکے یہ مسائل وہ ہیں جو کوئی ڈاکٹر حل نہیں کر سکتا یہ منصوبہ سازوں کا کام ہے جو خلوص نیت سے یہ کام کرنا چاہتے ہوں۔‘‘
پاکستان میں خام ملکی پیداوار کا سالانہ دو فیصد سے بھی کم صحت کے شعبے کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے عوام کو ان کے علاقوں میں ہی صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ایک ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس میں تحصیل اور ضلع کی سطح پر کام کرنے والے مراکز صحت زیادہ فعال اور موثر انداز میں بنیادی سہولتیں فراہم کر سکیں جو اس شعبے میں اصلاحات لائے بغیر ممکن نہیں ہے۔